سٹی42: اسرائیل میں عوام کی اکثریت غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلہ میں 33 یرغمالیوں کی واپسی کے بعد بھی جنگ بندی کے معاہدے کو جاری رکھنے کے حق میں ہے۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات اسرائیل کے ایک نیوز آؤٹ لیٹ کان پبلک براڈ کاسٹر نے رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزہ کے نتائج بتائے جس کے مطابق اسرائیلی عوام کی اکثریت دوسرے مرحلے تک یرغمالیوں کے معاہدے کو جاری رکھنے کی حمایت کرتی ہے۔
کان پبلک براڈکاسٹر پر نشر کیے گئے ایک سروے کے مطابق رائے شماری سے پتہ چلتا ہے کہ پچپن فیصد عوام چاہتے ہیں کہ معاہدہ جاری رہے، حالانکہ اس کا مطلب جنگ کا خاتمہ ہے۔ ستائیس فیصد عوام کا خیال ہے کہ جنگ پہلے مرحلے کے بعد دوبارہ شروع ہونی چاہیے جبکہ اٹھارہ فیصد کا کہنا ہے کہ "وہ نہیں جانتے"۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس سے قبل حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ نیتن یاہو نے مبینہ طور پر اپنی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کے وزراء کو اشارہ دیا ہے کہ وہ سیز فائر کے پہلے مرحلے (33 یرغمالیوں کی رہائی) کے بعد بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لیکوڈد پارٹی نے کل ایک بیان بھی جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو یقین دہانی کرائی ہے کہ "اسرائیل پہلے مرحلے کے بعد دوبارہ جنگ شروع کر سکے گا۔"
جنگ بندی کے دو روز پہلے طے ہونے والے معاہدہ کی دستاویز کے مطابق جنگ بندی کے سولہ روز پر مشتمل پہلے مرحلے کے دوران اسرائیل اور حماس دوسرے مرحلے کی شرائط کے حوالے سے مذاکرات کرنے والے ہیں جس کے دوران باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔
ثالث اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضامن کے طور پر کام کریں گے کہ فریقین اس وقت تک مذاکرات کی میز پر رہیں جب تک کہ دوسرے مرحلے پر کوئی معاہدہ نہیں ہو جاتا۔ اس دوسرے مرحلہ کے معاہدہ سے اسرائیل کے باقی تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی ہو گی اور اس کے عوض حماس کی جو شرائط مانی جائین گی ان پر عمل ہو گا، اس مرحلہ کے نتیجہ میں ہی غزہ جنگ بندی میں توسیع کا حقیقی امکان ہو گا۔ دوحہ میں جنگ بندی کروانے والے ثالثوں کو امید ہے کہ دوسرا مرحلہ مستقل جنگ بندی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔
اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ کان کا کروایا ہوا پبلک اوپینئین پول یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ 62% عوام اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں 18% مخالفت کر رہے ہیں اور 20% ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ وہ اس سوال پر کوئی فیصلہ نہیں سنانا چاہتے۔
اوپینئین پول میں یہ اہم بات سامنے آئی کہ نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے ووٹروں میں بھی، 45% جواب دہندگان اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ 30% اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
تاہم، اتحادی رائے دہندگان میں سے 46 فیصد کا خیال ہے کہ اسرائیل کو دوسرے مرحلے میں لڑائی دوبارہ شروع کرنی چاہیے، جو کہ معاہدے کی شرائط کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ جنگ دوسرے مرحلہ میں رہا کئے جانے والے یرغمالیوں کی قیمت پر ہی دوبارہ شروع کی جا سکے گی۔ حکومتی اتحاد کے پینتیس فیصد ووٹروں نے معاہدے کو دوسرے مرحلے تک جاری رکھنے کی حمایت کی اور ان میں سے 19 فیصد نے کہا کہ "وہ نہیں جانتے"۔
سامنے موجود حالات اور مختلف سیاسی عناصر کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے40 فیصد عوام کے خیال میں درمیانے درجے کا امکان ہے کہ یہ معاہدہ دوسرے مرحلے تک بڑھے گا جبکہ 23 فیصد کا خیال ہے کہ اس کے ہپہلے مرحلہ سے آگے بڑھنے کا امکان کم ہے اور 21 فیصد کا خیال ہے کہ اس کے زیادہ امکانات ہیں۔ سولہ فیصد نے کہا کہ وہ غیر یقینی ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کون سا فریق اس حقیقت کا ذمہ دار ہے کہ معاہدے تک پہنچنے میں تقریباً 470 دن لگے، 36 فیصد نے کہا کہ یہ حماس ہے، 25 فیصد نے کہا کہ یہ اسرائیل ہے، 22 فیصد نے کہا کہ دونوں فریق برابر ذمہ دار ہیں جبکہ 17 فیصد نے کہا کہ وہ نہیں جانتے۔