سٹی42: دریائے سندھ سےنہریں نکالنے کی تجویز کے خلاف سندھ مین احتجاج بڑھتے بڑھتے شٹر ڈاؤن ہڑتال تک پہنچ گیا۔ سندھ دریا مین سے چھ نئی نہریں نکالنے کے منصوبے پر احتجاج کے لئے سندھ ترقی پسند پارٹی کی کال پر کئی شہروں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق حیدرآباد کے تعلقہ قاسم آباد میں دکانیں، بازار بند رہے جب کہ تعلقہ سٹی کے کچھ علاقوں میں کچھ ہی دکانیں بند ہوئیں۔
سندھ ترقی پسند پارٹی کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال کے روز زبردستی دوکانیں بند کروانے سے روکنے اور دوکانین کھولنے والوں کے تحفظ کیلئے حیدرآباد شہر کے مختلف مقامات پر پولیس نفری معمول سے زائد تعینات کی گئی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹھٹہ، مکلی، گھارو،گجو اور دھابیجی کے بڑے بازاروں میں شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی۔ سبزی مارکیٹ، گوشت مارکیٹ ، ریستوران اور پیٹرول پمپ بند رہے، بڑے بازار بند رہے تاہم محلوں میں کریانہ کی دوکانیں معمول کے مطابق کھلی رہیں۔
حیدرآباد کے جڑواں شہر جامشورو میں بھی کاروباری مراکز، سبزی منڈی بند رہے۔
حیدر آباد کے نزدیکی شہر ٹنڈومحمدخان شہر میں مکمل ہڑتال رہی۔ مٹیاری، سجاول، میہڑ، نوشہروفیروز، ڈگری اور نوکوٹ میں بھی مرکزی بازار بند رہے۔
سندھ کے عوام کا مؤقف
سندھ کی پی ٹی آئی کے سوا بیشتر سیاسی پارٹیاں سندھ دریا کے پانی کی تقسیم کے 1991 کے معاہدہ پر سختی سے عمل کروانے کے حق مین ہیں اور سندھ دریا سے سندھ، پنجاب، بلوچستان کے طے شدہ حصہ سے ایک قطرہ بھی کم یا زیادہ پانی کسی صوبے کو دینے کے خلاف ہیں۔ سندھ کے عوام سمجھتے ہیں کہ دریا پر مزید نہیں بنانے سے لا محالہ سندھیوں کے لئے 1991 کے معاہدہ کے تحت ملنے والا پانی ہی کم ہو گا۔ سندھیوں اور ان کے ساتھ ماحول کے پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کو خوف ہے کہ دریا مین بہہ کر آنے والے پانی میں کمی ہوئی تو دریا کا ڈیلٹا تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا اور ڈیلٹا کو سمندر نگل لے گا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اب بھی سال کے بیشتر حصہ کے دوران ڈاؤن سٹریم کوٹری دریا مین پانی نہیں ہوتا یا از حد کم ہوتا ہے۔ ڈیلٹا مین پانی تھوڑا جانے کی وجہ سے ڈیلٹا کا سینکڑوں کلومیٹر رقبہ پر محیط ایکو سسٹم تباہی سے دوچار ہے اور سمندر کا پانی ڈیلٹا پر چڑھ آنے سے زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں اور مینگروو کے جنگل بھی تباہ ہو رہے ہیں۔
1991 کا معاہدہ
1991 کا سندھ دریا کے پانی کی تقسیم کا تاریخی معاہدہ مسلم لیگ نون کی ہی حکومت کے دوران ہوا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت صوبوں مین پانی تقسیم کرنے کی ذمہ داری انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ہے جس میں وفاقی کے ساتھ چاروں صوبوں کے ایک ایک نمائندہ مقرر ہے، ارسا کا دفتر اسلام آباد مین ہے۔ ارسا دریاؤں میں پانی کی آمد، ڈیمز مین پانی کے ذخیرہ اور بیراجوں اور ڈیمز سے پانی کے نہروں میں اخراج کا مکمل حساب رکھتا ہے اور اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ سال کے تمام دنوں مین صوبوں کو ان کے طے شدہ حصہ کے تناسب سے پانی ملتا رہے۔ جب پانی کی قلت ہوتی ہے تو یہ قلت طے شدہ فارمولا کے مطابق صوبوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ پانی کی فراوانی ہو تو بھی صوبوں کو طے شدہ شرح سے وافر پانی ملتا ہے اور فالتو پا نی دریا میں رہتا ہے جو بہہ کر سمندر میں جاتا ہے۔