وراسٹائل اداکارعلی اعجازکوبچھڑے 6برس بیت گئے

18 Dec, 2024 | 10:24 AM

ایم وقار:فلم، ریڈیو، ٹی وی اور تھیٹرکے مقبول اداکار علی اعجاز کوبچھڑے چھ برس بیت گئے۔

 علی اعجاز کا شمار پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ ان ناموں میں ہوتاتھا جنہیں شوبز کی دنیا کا اثاثہ اور قابل فخر ورثہ قرار دیا جاتاتھا،پاکستانی فلموں کی تاریخ مرتب کرنےوالوں کےلئے علی اعجاز کا ذکر نہ کرنا ممکن ہی نہیں کہ ان کے بغیر نہ تو فلمی تاریخ مکمل ہوگی اور نہ ہی قابل اعتبار ٹھہرے گی،وہ اس سنہرے دور میں فلموں میں آئے جب ہر طرف بڑے بڑے نام جگمگا رہے تھے‘لیکن انہوں نے اس لگن،انہماک اور توجہ کے ساتھ کام کیا کہ اپنے دور کے تمام فلمسازوں کی مجبوری بن گئے،یہ اعزاز بہت کم اداکاروں کو نصیب ہوتا ہے کہ ان کے کام کی بدولت ان کا نام ہی فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جائے،ایسے ناموں کی  فہرست مرتب کی جائے تو یقیناً علی اعجاز کا نام اس میں نمایاں ہوگا،علی اعجاز کی اداکاری اس قدر فطری اور جاندارہوتی  کہ دیکھنے والوں کو گمان بھی نہ ہوتا کہ ان کے سامنے ”اداکاری“ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،مکالموں کی ادائیگی، آواز کے اتار چڑھاؤ اور چہرے کے تاثرات سے وہ  اپنے ہر ”سین“ کو مکمل کر دیتے تھے۔

21 اکتوبر 1942 ء کو لاہور  میں پیدا ہونے والے علی اعجازکا تعلق لاہور کے علاقے قلعہ گوجرسنگھ کی سید فیملی سے تھا،ان کے والد کا مزار ملتان روڈ پرہنجروال میں واقع ہے،علی اعجازکی ابتدا میں ہی دوستی رفیع خاورننھا اورمنور ظریف سے تھی،انہیں اور منورظریف کو بڑے ظریف کو دیکھ کر اداکاری کا شوق ہوا تھا،علی اعجازنے نیشنل بنک میں بھی ملازمت کی،فلموں میں آنے سے پہلے ان کا ڈرامہ "لاکھوں میں تین"پی ٹی وی سے سپرہٹ ہواتھا جس میں ان کے ساتھ قمر چوہدری اور محمد قوی خان نے بھی کام کیا تھا،اسی ڈرامے میں ان کی پرفارمنس دیکھ کر شباب کیرانوی نے ان سے فلم میں کام کے لئے رابطہ کیاتھا۔

علی اعجاز نے اگرچہ 1961ءمیں  فلم"انسانیت"سے فلمی دنیا میں قدم رکھ لیکن 1979میں ریلیز ہونے والی فلم "دبئی چلو" نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا،انہوں نے 80 کی دہائی میں منور ظریف، ننھا اور رنگیلا کی موجودگی میں اپنی منفرد پہچان بنائی،اپنے وقت کی نامور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا لیکن فلم اسٹار ممتاز کے ساتھ ان کی فلموں کے کئی گانے سپر ہٹ ہوئے تھے،اداکارہ انجمن کے ساتھ بھی کئی فلموں میں کام کیاتھا۔

علی اعجاز نے 106 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 84 پنجابی ،22 اردو اور ایک پشتو فلم شامل تھی،ان فلموں میں انسانیت، دبئی چلو، دادا استاد، پیار دا پلہ ، بھائیاں دی جوڑی، یملا جٹ، بد نالوں بدنام برا،عشق میرا ناں ،سادھو اور شیطان، لیلیٰ مجنوں، ظلم کدی نئیں پھلدا،سدھا رستہ ،بادل، سوہرا تے جوائی،مسٹر افلاطون،نوکر تے مالک، ووہٹی دا سوال اے، باؤ جی ،دشمن پیارا، اندھیر نگری، دھی رانی ، چور مچائے شور، عشق میرا ناں، بھروسہ ،سالا صاحب ،اتھرا پتر، آپ سے کیا پردہ، سسرال چلو اور عشق سمندر سمیت بہت سی فلمیں شامل ہیں، ریڈیو پر بھی کئی پروگراموں کی میزبانی کی،ان کےڈراموں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

 علی اعجاز کو 1993ء میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیاتھا، وہ 18 دسمبر 2018ء کو77برس کی عمرمیں خالق حقیقی سے جاملے تھے،وہ فالج اورعارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

مزیدخبریں