(ویب ڈیسک)پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست قرار پاتے ہیں یا نہیں؟الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20 روز میں انتخابات کرانے کا کہا جس پر ہم نے آرڈر کے تحت الیکشن کرائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا چیئرمین کا عہدہ 5 سال اور پینل کا 3 سال کا الیکشن ہوتا ہے، جہاں بلامقابلہ الیکشن ہوتا ہے وہاں ووٹنگ کی ضرورت نہیں ہوتی، عام انتخابات بھی بلامقابلہ ہوتے ہیں، بلامقابلہ الیکشن غیر قانونی نہیں اور اس کے لیے ووٹنگ کی ضرورت بھی نہیں۔انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا طریقہ کار پاکستان کے آئین، الیکشن ایکٹ اور الیکشن رولز میں درج نہیں ہے، الیکشن ایکٹ میں انٹر پارٹی الیکشن کرانے کا معاملہ پارٹی پر چھوڑا گیا ہے، ہمارے آئین میں صرف یہ ہے کہ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو۔
علی ظفر کا کہنا تھا انٹر پارٹی الیکشن میں الیکشن کمیشن ریگولیٹر نہیں لہذا اس ادارے کے پاس الیکشن تنازع نہیں لایا جا سکتا۔الیکشن ایکٹ انٹراپارٹی الیکشن اور ممبرشپ کی بات کرتاہے، ہر کوئی پارٹی ممبر نہیں، ووٹر، سپورٹر اور ممبر میں فرق ہے، ممبر وہ ہے جو پارٹی میں شمولیت اختیار کرے اسے ممبرشپ کارڈ دیا جاتا ہے لیکن پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف جن لوگوں نے درخواستیں دیں ان میں سے کوئی ایک بھی پارٹی کا ممبر نہیں ہے، الیکشن پر کوئی ناراض ہو، کوئی پارٹی کا ممبر نہ ہو وہ شکایت نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے جو پارٹی کا قانونی ممبرنہ ہو وہ اعتراض نہیں کر سکتا۔
چیف الیکشن کمشنر نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ درخواست گزار پی ٹی آئی کے ممبر نہیں ہیں جبکہ ممبر الیکشن کمیشن نے کہا آپ کہہ رہے کہ یہ نظریہ ضرورت کے تحت ہوا، اعلان سے کوئی چیئرمین بن سکتا ہے؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا ہمارے رول میں ہے کہ سیٹ خالی ہو اور وقت کم ہو تو سیکرٹری جنرل چیف الیکشن کمشنر نوٹیفائی کرتا ہے، جس پر ممبر الیکشن کمیشن نے کہا ہم نے جو آرڈر دیا تو اس میں چئیرمین اور سیکرٹری جنرل نہیں رہے، آپ کے عہدیدار ختم ہو گئے، اس عبوری دور میں کون چیئرمین تھے۔ قانون کے تحت پرانے چیئرمین ہی رہیں گے، ابھی صدر مملکت کی مدت ختم ہوئی لیکن آئین کے تحت وہ اب بھی صدر ہیں، ضرورت نہیں تھی لیکن ہم نے پھر بھی الیکشن شیڈول سب آفسزکے باہر لگا دیا۔
ممبر کمیشن نے استفسار کیا سارے ملک کے الیکشن پشاور میں ہوئے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہر پارٹی کا الیکشن ایک ہی جگہ ہوتا ہے، پی ٹی آئی الیکشن شیڈول میڈیا میں آیا، نومبر 30 کو الیکشن کمیشن کو بھی ارسال کر دیا کہ ہمیں پولنگ کے دن سیکورٹی فراہم کی جائے، ہمارے 8 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 6 لاکھ سمندر پار پاکستانی ہیں، اس عمل کے دوران کسی نے کاغذات نامزدگی نہیں لیے اور کسی نے پارٹی چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ نہیں کیا، ہم نہیں کہہ سکتے کہ آؤ آکر الیکشن لڑو، یہ الیکشن لڑنا رضاکارانہ ہے۔
’آپ تو جلسے بھی نیٹ پر رکھتے ہیں‘
چیف الیکشن کمشنر نے کہا آپ تو جلسے بھی نیٹ پر رکھتے ہیں، سکندر سلطان راجا کے ریمارکس پر الیکشن کمیشن میں قہقہے لگ گئے۔ممبر کمیشن نے استفسار کیا آپ کے کاغذات نامزدگی کہاں سے مل رہے تھے جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ہمارے فارم مرکزی آفس اور باقی افسز سے بھی مل رہے تھے، درخواست گزاروں نے اپنی درخواست میں کوئی پینل نہیں لگایا، پورے ملک کو معلوم تھا الیکشن ہو رہا ہے، یہ کوئی چھپا ہوا الیکشن نہیں تھا۔
وکیل درخواست گزار عزیز الدین کاکاخیل نے کہا کوئی الیکشن نہیں ہوا صرف سیلیکشن ہوا ہے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔ چیلنج کرتا ہوں مجھ سے پہلےکوئی اس جماعت میں آیا ہو، میری ممبرشپ سماعت سے ایک دن قبل ختم کی گئی۔میرے مؤکل پر 9 مئی کی ایف آئی آر ہے، شاہ فہد اڈیالہ جیل میں بھی رہے، انکا جرم تھا پی ٹی آئی کا رکن ہونا تھا جس حق سے اب ان کی جماعت انھیں محروم کر رہی ہے، بلا مقابلہ الیکشن کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن میں درخواست گزاروں کے جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔