ایرانی صدر کا ایرانی سڑکوں پر حجاب کی پابندی کے متعلق اہم اعتراف

17 Sep, 2024 | 09:47 PM

سٹی42:مہسا امینی کے حراست میں قتل کے دو سال بعد ایران کے صدر نے تسلیم کر لیا کہ    گشتِ ارشاد ("اخلاقی پولیس")کو سڑکوں پر خواتین کو روکنا نہیں چاہیے۔صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران کی اخلاقی پولیس حجاب نہ لینے والی خواتین کو تنگ نہیں کرے گی۔

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے یہ باتین ایک غیر ملکی صحافی کے سوال کے جواب میں کہیں،  اسے  ملک کی اخلاقی پولیس ’گشتِ ارشاد‘ کے حوالے سے اس بیان کو ایران کی حکومت کی جانب سے ماضی کی زیادتیوں اور  تشدد آمیز حجاب پالیسی  کے حوالے سے  دیکھا جا رہا ہے کیونکہ یہ اعتراف اس روز سامنے آیا جب  ایران اور دنیا بھر مین 16 ستمبر  2022 کو تہران میں گشتِ ارشاد کے اہلکاروں کے تشدد کا شکار ہونے والی نوجوان خاتون مہسا امینی کی دوسری برسی منائی جا رہی تھی۔ 

پیر کے روز  جب تہران کی 2022 میں 16 ستمبر کو  گشتِ ارشاد اور دوسرے اہلکاروں کے تشدد سے تہران کے ایک ہسپتال میں فوت ہونے والی 22 سالہ نوجوان لڑکی مہسا امینی کی دوسری برسی تھی، ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ایک غیر ملکی خاتون صحافی نے سوال کے لئے کھڑے ہو کر بتایا کہ انہیں پریس کانفرنس کے مقام تک پہنچنے کے لیے طویل راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ وہ راستے میں پولیس سے بچ سکیں۔ 

برطانوی میڈیا کے مطابق خاتون صحافی نے سوال کرتے وقت  اس انداز میں اسکارف لیا ہوا تھا جس سے ان کا سر پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں تھا۔ حجاب کے حوالے سے سختی کرنے میں بدنام گشتِ ارشاد کے اہلکار حجاب کے بضیر اور مکمل بال نہ ڈھانپنے والی خواتین کے ساتھ غیر ضروری تشدد اور درشت رویہ اپنانے کے حوالے سے بدنام ہیں۔ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر  نے غیر ملکی خاتون صحافی سے پوچھا  کہ  کیا پولیس اب بھی سڑکوں پر ہوتی ہے تو خاتون صحافی نے جواب دیا کہ ایسا ہی ہے۔

اس پر ایرانی صدر نے کہا کہ اخلاقی پولیس کو خواتین کو نہیں روکنا چاہیے اور میں اس معاملے کو دیکھوں گا کہ وہ خواتین کو تنگ نہ کریں۔

خیال رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حجاب کی پابندی کروانے والی پولیس گشت کی مخالفت کریں گے۔

مہسا امینی کے ساتھ کیا ہوا تھا

16 ستمبر 2022 کو،تہران کی رہنے والی یونیورسٹی گریجویٹ  22 سالہ  خاتون مہسا امینی،  جسے جینا امینی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تہران، ایران کے ایک اسپتال میں مشتبہ حالات میں انتقال کر گئیں۔ ایران کی حکومت کی مذہبی اخلاقی پولیس، گائیڈنس پٹرول  (گشتِ ارشاد) نے امینی کو  حکومتی معیار کے مطابق حجاب نہ پاوڑھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس گرفتاری کے دوران ان پر تشدد کیا گیا جس سے ان کے سر پر مہلک چوٹ لگی تھی، اس چوٹ کے سبب وہ کوما میں چلی گئی۔ 

بعد میں ایران کے قانون نافذ کرنے والے ادارہ نے بتایا کہ  مہسا امینی کو  پولیس اسٹیشن میں دل کا دورہ پڑا، وہ گر گئیں اور ہسپتال منتقل کرنے سے پہلے کوما میں چلی گئیں۔ تاہم، عینی شاہدین، جن میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنہیں امینی کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا، نے بتایا کہ اسے شدید مارا پیٹا گیا اور وہ پولیس کی بربریت کے نتیجے میں مر گئی۔ جس کی ایرانی حکام نے تردید کی۔  مہسا امینی کے سر کی چوٹ کے بعد میں لیک ہونے والے میڈیکل سکینز  نے  کچھ مبصرین کو یقین کرنے پر مجبور کیا کہ امینی کو گرفتاری کے بعد سر میں لگنے والی چوٹوں کی وجہ سے دماغی نکسیر یا فالج کا حملہ ہوا تھا۔

نوجواب مہسا امینی کی موت کے نتیجے میں  2009، 2017 اور 2019 کے مظاہروں سے بھی  زیادہ وسیع پیمانے پر ہونے والے عوامی احتجاج اور روزانہ رات کو  کئی شہروں میں سڑکوں پر مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔  ان احتجاجی مظاہروں میں کچھ خواتین مظاہرین نے احتجاج کے طور پر اپنا حجاب اتار دیا ، کچھ نے سرعام اپنے بال کاٹ لیے۔

 ایران ہیومن رائٹس کے کارکنوں نے رپورٹ کیا کہ 17 ستمبر 2022سے دسمبر 2022 تک کم از کم 476 افراد ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر سکیورٹی فورسز کے حملے میں مارے گئے۔ مہسا امینی کی موت سے  "زن، زندگی، آزادی" کی عالمی سطح کی تحریک کا آغاز ہوا جو یورپ اور امریکہ مین مقیم ایرانی خواتین اور ڈایا سپورا کے مرد ارکان چلا رہے تھے۔ ، اس تحریک سے ایران میں خواتین کے لازمی حجاب کے قوانین اور  خواتین سے  امتیازی سلوک اور جبر کے خاتمے کا مطالبہ  شدت سے ابھرا۔

مزیدخبریں