آزادی چاچا کا الیکشن؛ کشمیری آج ظلم کا بدلہ ووٹ سے لیں گے؟

17 Sep, 2024 | 05:46 PM

سٹی42: بھارت کی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں استبداد کے ستائے عوام نے بھارت کے ضاصبانہ قبضہ کو جائز قرار دینے کی بھونڈی کوشش، ریاستی اسمبلی کے انتخاب کو ہی آزادی اور جبر سے نجات کی تحریک کا ہتھیار بنا لیا۔ ریاستی اسمبلی کے الیکشن سے پہلے لاکھوں فوجیوں کے بوٹوں تلے کچلی جا رہی کشمیری عوام کے لئے جن موضوعات پر لب کھولنا محال تھام اب نام نہاد ریاستی الیکشن کی کیمپین کے دوران عام کشمیری ان موضوعات پر کھل پر بات کر رہے ہیں۔
جموں کی 43 اور کشمیر کی 47 اسمبلی سیٹوں کے لیے کل بدھ کو شروع ہونے والے تین مرحلوں کے انتخابات سے پہلے سیاسی ریلیوں میں وہ ساری باتیں ہو رہی ہیں جن کے معمولی سے اظہار پر بھی لوگوں کو تھانوں میں طلب کیا جاتا تھا اور بری طرح ڈرانے دھمکانے سے لے کر قید رکھ کر تشدد کا نشانہ بنانے تک کچھ بھی کیا جا سکتا تھا۔

پیریفری کی مین سٹریمنگ یا آزادی پسند بلاک کی تشکیلِ نو؟؟

حکمران جماعت بی جے پی اور اس کے حامی میڈیا فروپ اسے ’علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کا احیا‘ کہتے ہیں جبکہ دیگر  بھارتی وفاق پرست حلقے اسے ’مین سٹریمِنگ آف سینٹِمنٹ‘ یعنی عوامی جذبات کے  دائرہ کے بیرونی کنارےسے واپس مرکزی بیانیہ کا حصہ بننا قرار دے رہے ہیں۔ عوامی تنقید پر یہ تو بھارت کے وفاق پرست گروپوں کی تشریح ہے، سادہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے وفاق مین جبراً رہنے پر بھی تیار نہین انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، جتنا موقع مل جائے وہ اس سے زیادہ بلند آواز سے بھارت کے وفاق سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور حالیہ نام نہاد ریاستی الیکشن سے پہلے بھی یہی ہو رہا ہے۔ باشعور کشمیری اپنے کچلے گئے حقوق، آزادی اور اپنی قومی امنگوں کا اظہار مختلف پیرائیوں میں کر رہے ہیں۔ 

ووٹ احتجاج کا ہتھیار!

ریاست کشمیر کے سابق وزیر حسیب درابو نے پیر کو ہی انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر میں شائع ایک کالم میں لکھا: ’ووٹ اب احتجاج کا ایک آلہ بن چکا ہے۔
’ووٹ اب نیا پتھر ہے۔ یہ مثبت تبدیلی ہے کہ پتھر پھینکنے والے، جنھیں (حکومت کی طرف سے) احتجاجی دہشت گرد کہا جاتا تھا وہ جمہوریت کی ڈومین میں لوٹ رہے ہیں۔‘

قیدی نے وفاق پرست سابق وزیر اعلیٰ کو الیکشن میں رگید ڈالا
اس سال اپریل میں انڈیا کی پارلیمنٹ کے لیے پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی الیکشن ہوئے۔ عین انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی فنڈنگ کے الزام میں پانچ سال سے دلی کی تہاڑ جیل میں قید سابق رکن اسمبلی عبدالرشید شیخ عرف انجینیئر رشید کو جیل سے ہی الیکشن لڑنے کی اچانک اجازت ملی۔
اُن کے نوعمر بیٹے ابرار رشید نے مہم چلائی تو ہزاروں لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انجینیئر رشید نے جیل میں بیٹھے بیٹھے سابق وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ کو دو لاکھ ووٹوں کے بھاری فرق سے ہرا دیا اور اپنے روایتی حریف سجاد غنی لون کو تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا۔
اُن کی جیت کے لیے اُن کی مہم اور اس دوران لگنے والے نعروں کو  کریڈٹ دیا گیا جبکہ ایک حقیقت لوگوں کی وفاق اور وفاق پرست سیاست دانوں سے عمومی بیزاری بھی تھی جو اظہار کا موقع تلاش کر رہی تھی۔ 

ان کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی نے قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔  اُن کے نعروں میں ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ شامل ہیں۔

محبوبہ مفتی کی سیاست کا دیہانت

حالیہ پارلیمانی انتخابات میں  سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی شکست ہوئی تھی، جس کے بعد انھوں نےریاستی اسمبلی کے کل بدھ کو ہونے والے انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور اپنی جگہ اپنی بیٹی التجا مفتی کو  الیکشن لڑوا دیا۔ 

تہاڑ جیل کے قیدی انجینئیر رشید کی ریاست سیاست میں انٹری
مقامی اسمبلی کے لیے بھی مہم جاری ہی تھی کہ تہاڑ جیل میں قید انجینیئر رشید کو عدالت نے عبوری ضمانت پر تین ہفتوں کے لیے رہا کر دیا اور وہ زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم میں جڑ گئے اور وادی کشمیر کی تیس سے زیادہ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے۔

آزادی چاچا کی جیل سے انتخابی مہم
اس بار اسمبلی الیکشن میں تہاڑ جیل میں قید سرجان برکاتی عرف ’آزادی چاچا‘ بھی جیل سے ہی حصہ لے رہے ہیں اور ان کی مہم اُن کی بیٹی صغریٰ برکاتی چلا رہی ہیں۔

عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی بھارتی وفاق پرست جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینیئر رشید اور صغریٰ کی مہم نہ صرف  بھاری عوامی حمایت حاصل کر رہی ہے بلکہ سوشل پلیٹ فارمز پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہیں۔
کیونکہ دونوں کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔


تین فریقی مقابلے؟؟؟
ایک طرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد ہے دوسری طرف محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی ہے اور تیسری طرف انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی ہے، جس نے الیکشن سے تین روز پہلے حیران کن پیش رفت میں پاکستان پرست جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔
جماعت اسلامی نے آخری بار 1987 میں الیکشن لڑا تھا، اور مسلح شورش شروع ہوتے ہی انتخابات کو ’انڈیا کا سفارتی پراپیگنڈا اور شہیدوں کے ساتھ غداری‘ قرار دے کر لگاتار بائیکاٹ کی پالیسی اپنا لی تھی۔
لیکن اس بار جماعت اسلامی نے مقبوضہ  وادی میں یکمشت  9 اُمیدوار کھڑے کیے ہیں اور کل بدھ کے روز انجینیئر رشید اور جماعت اسلامی  کشمیر کی وفاق پرست  سیاسی جماعتوں کو 47 میں سے 40 سیٹوں پر چیلنج کررہے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیریوں کے ساتھ آڑٹیکل 370 کی تنسیخ جیسا ظلم کرنے کے ساتھ بدترین ریاستی جبر کے سبب بری طرح غیر مقبول ہو کر کٹھ پتلی انتظامیہ کے تحت ریاست میں پارلیمانی انتخابات مین حصہ لینے کی ہمت ہی نہیں کر سکی تھی تاہم اب دیلی تخت پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد بھاجپا نے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں کٹڑ ہندوتوا پرست ہندو ووٹرز کی بھاری تعداد رکھنے والے19 ریاستی حلقوں میں امیدوار کھڑے کرنے کا رسک لیا ہے۔ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں مین بھارتیہ جنتا پارٹی نے 43 نشستوں پر امیدوار دیئے ہیں۔

 انجینیئر رشید کی مقبولیت کی لہر کشمیر میں چلنے کے بعد  عمر عبد اللہ سمیت سبھی روایتی پارٹیوں نے اُنھیں بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے۔ جس  کے جواب مین اس پارٹی کے لوگوں نے مودی پر تنقی تیز کر دی اور اب آخری دنوں میں جماعت اسلامی سے اتحاد کر کے منظر نامہ ہی بدل ڈالا۔
اب سنجیدہ سیاسی مبصر مان رہے ہیں کہ  جماعت اسلامی اور انجینیئر رشید کا اتحاد وفاق پرستوں کی وادی کشمیر میں کامیابی کو مخدوش کر سکتا ہے۔

وادی میں نئے سیاسی فیکٹرز کی آمد کو عمومی طور پر عوام نے تو خوش آمدید کہا لیکن بعض مبصر اس رجحان کی یہ تشریح بھی کر رہے ہیں کہ جتنا وادی میں آزادی پسند سیاست ابھرے گی اتنا ہی جموں کے ہندو  اکثریتی علاقوں میں یی جے پی کے لئے سپیس بڑھے گی۔ جس قدر کشمیر میں سیاسی قوتوں کی ’مش رومنگ‘ ہوگی اُسی قدر بی جے پی کو جموں میں قدم جمانے میں مدد ملے گی۔
کئی مرتبہ حکومت کر چکی شیخ عبداللہ اور فاروْ عبدالہہ کی نیشنل کانفرنس جموں کشمیر میں 90 میں سے 51 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ کانگریس 32  نشستوں پر۔ دونوں کے درمیان انتخابی اتحاد کی سٹریٹیجی یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس مسلم اکثریتی کشمیر سے کم از کم 30 سیٹوں پر برتری حاصل کرے اور کانگریس جموں کے ہندو اکثریتی حلقوں سے کم از کم 15 سیٹیں جیت جائے۔ریاست جموں کشمیر کی اسمبلی میں سادہ اکثریت 45 ارکان سے ملتی ہے۔ 
انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی الیکشن کمیشن میں رجسٹر ڈ پارٹیاں نہیں ہیں۔ ان کے تمام امیدوار   آزاد امیدواروں کی حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر آزاد امیدواروں کی تعداد کل امیدواروں کا 44  فیصد ہے۔

جماعت رشید اتحاد؛ کنگ نہیں تو کنگ میکر؟؟
وفاق پرست سیاسی جماعتوں کے حامی انتخابی مہم کے دوران کم پذیرائی ملنے کے باوجود کل بدھ کے الیکشن میں وفاق پرستوں کے لئے کوئی معجزہ ہوتا دیکھنے کے خواہاں ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ تجزی کار احتیاط کے ساتھ نئے سیاسی فیکٹر کو تول رہے ہیں۔  ایک تجزیہ کار عمر رئیس نے ایک غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلی میں ہجوم اکٹھا کر لینا الگ بات ہے اور اُس ہجوم کو ووٹوں میں تبدیل کرنا الگ بات۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد اس نئی لہر سے ضرور پریشان ہوسکتا ہے، کیونکہ اگر کشمیر سے صرف ایک درجن نئے چہرے منتخب ہوئے تو وہ گروپ کِنگ میکر بن سکتا ہے۔‘

بی جے پی کا خواب
2014 کے پارلیمانی انتخابات میں جیت اور نریندر مودی کے اقتدار پر براجمان ہونے بعد سے ہی بی جے پی اس آرزو کو دوہراتی رہی ہے کہ جموں کشمیر میں ان کی حکومت بنے گی اور وزیراعلیٰ ہندو ہوگا تاکہ ’جموں کشمیر کے اقتدار پر کشمیری مسلمانوں کی بالادستی کو ختم کیا جائے۔‘
 اس بار بی جے پی کو ملکی سطح پر بھی سیاسی کمزوری کا سامنا ہے اور جموں میں پارٹی کے اندر نامزدگیوں کو لے کر  الگ سےاندرونی خلفشار چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگرس کا بھارت کے کئی علاقوں مین ابھار جموں مین بھی اثرات دکھا رہا ہے۔ 
لیکن اس سال اپریل میں ہوئے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو 29 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوئی تھی جس کی وجہ سے پارٹی پرامید ہے کہ وہ جموں میں سویپ کرسکتی ہے۔
 بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے لیے ہندو ووٹروں کے ساتھ ساتھ جموں کی چناب ویلی (ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن) اور نیلم ویلی (راجوری پونچھ) کے مسلم ووٹروں کا اہم کردار  درکار ہوگا جو اب نئی سیاسی لہر کے سبب مخدوش ہو سکتا ہے تاہم حقیقت کا اندازہ انتخابات کے بعد ہی ہو سکے گا۔ ۔
جموں کشمیرپورےبھارت میں واحد خطہ ہے جہاں پہلے ہی انتخابی حلقوں کی نئی حدبندی مکمل کی جاچکی ہے اور یہ عمومی طور پر بی جے پی کے فائدہ میں ہے۔ چناب میں اس فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے۔
کالم نویس مبشر نائیک کے مطابق چناب ویلی کی چھ سیٹوں میں جن دو سیٹوں ڈوڈہ ویسٹ اور پاڈر۔ناگ سینی حلقوں کا اضافہ کیا گیا، وہ دونوں سیٹیں ہندو اکثریتی علاقے ہیں اور حدبندی کی وجہ سے کشتواڑ سے چند حصہ کاٹ کر اسے بھی ہندو اکثریتی کانسچونسی بنایا گیا۔
 2014 میں بی جے پی نے  یکطرفہ الیکشن میں چناب ویلی میں چھ میں سے چار سیٹوں پر جیت لی تھیں۔  شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے جموں کشمیر کی انتخابی مہم کی شروعات کشتواڑ میں بڑی ریلی سے کی۔
اس قدر پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں گر ان انتخابات کا نتیجہ معلق اسمبلی کی صورت میں نکلا تو سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی جماعت کو اتحادی اکٹھا کرنے میں ایڑی چوڑی کا زور لگانا پڑسکتا ہے۔ اس صورت حال میں نئے سیاسی فیکٹر کے لئے آگے بڑھنے اور اپنی عوامی حمایت کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لئے مواقع بڑھ سکتے ہیں ۔ 

مزیدخبریں