(ندیم انجم ) حکومت نے گزشتہ روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کر دیا، اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں تقریباً ایک روپیہ اضافے کی تجویر دی تھی مگر وزیر اعظم نے پانچ روپے اضافہ کرکے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑک دیا اور روز بروز مہنگائی کا واویلا کرتے مجبور اور بے بس عوام پر گویا پٹرول چھڑک کر ان کی خواہشات کو آگ میں جھلسنے اور تڑپنے کا تماشا دیکھنے کی کوشش کی گئی۔
24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں سلیم بخاری، افتخار احمد، پی جے میر اور جاوید اقبال اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے عام آدمی کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پاکستان کے حکمران اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔
سلیم بخاری کا کہنا تھاکہ عام آدمی پر بجلی کے اضافی بلوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، اس کی سانسیں بحال نہیں ہو پاتیں کہ اْس پر پٹرول بم گرا دیا جاتا ہے، ابھی وہ اس سے نہیں سنبھل پاتا کہ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ چھ ماہ میں چھ منی بجٹ آچکے ہیں۔
جاوید اقبال نے جذباتی انداز میں عوام کی تکلیف اور پریشانی پر اظہار خیال کیا، ان کا کہنا تھا کہ جس کی تنخواہ بیس ہزار ہے وہ بجلی کے بل دے، بیماری کا علاج کرائے یا اپنے بچوں کی خوراک پوری کرے، حکومت کے وزیر عام آدمی کی بے بسی پر نمک پاشی کرتے ہیں اور طنز کے تیر برساتے ہیں جب یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے جب یہ بتاتے ہیں کہ امپورٹ ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گیا ہے تو وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ متوسط طبقہ اب نہ اپنے گھر کا خواب دیکھ سکتا ہے نہ اپنے بچوں کی تعلیم کیاخراجات برداشت کر سکتا ہے نہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکتا ہے ۔پی جے میر نے کہا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے در اصل مسئلہ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے ہے جو قیمتوں پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں جس پر افتخار احمد نے کہا ریگو لیٹری اتھارٹی نے ایک روپیہ بڑھانے کی تجویز دی وزیر اعظم نے پانچ روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔
پینل نے وزیر اعظم عمران خان کے امریکی میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو پر بھی اظہار خیال کیا۔سلیم بخاری نے وزیر اعظم کے جرأت مندانہ مؤقف پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسا حکمران نہیں ملے گا جو امریکی چینل پر اس دبنگ انداز میں امریکا کی پالیسیوں پر تنقید کرے اور کہے کہ اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو امریکا کی جنگ میں شامل نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کو خبر دار کیا ہے کہ اگر افغانستان پر توجہ نہ دی گئی تو دہشت گردی کا اتنا بڑا طوفان آئے گا کہ دنیا کو کئی نائن الیون برداشت کرنے پڑیں گے۔ افتخار احمد نے کہا کہ وزیر اعظم نے امریکی انتظامیہ کو دو ٹوک پیغام دے دیا کہ پاکستان امریکا سے ایسے تعلقات چاہتا ہے، جیسے اس کے بھارت کے ساتھ ہیں، ہم نے افغانستان کی جنگ کے دوران 20 بلین ڈالر کی امداد حاصل کی لیکن ہمارا 170 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ اگر دنیا نے افغانستان کو نظر انداز کیا تو وہاں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ۔
پی جے میر کا کہنا تھا کہ امریکی صدر بائیڈن کی فون کال کے حوالے سے سوال کا جواب بھی وزیر اعظم نے نہایت سمجھداری او ر تدبر سے دیا۔ پینل نے صدر پاکستان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو تسلیم کرنے کے عندیے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے ہماری تین نسلوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہمارے فوج اور پولیس کے افسروں اور جوانوں نے شہادتیں دیں کیا انہیں معافی دی جا سکتی ہے کیا شہیدوں کا خون معاف کیا جا سکتا ہے اگر انہیں معاف کرنا یہ تو سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔
پی جے میر کا کہنا تھا کہ اگر امریکا کے دباؤ یا افغان طالبان کی ایما پر ایسا کوئی اقدام کیا گیا تو پاکستانی عام اسے تسلیم نہیں کریں گے ایسے فیصلے انفرادی سطح پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد کئے جاتے ہیں۔ افتخار احمد کا کہنا تھا کہ اب بھی میرے فوجی جوانوں پر سرحد پار سے حملے ہو رہے ہیں جو تشویش ناک ہے۔ پینل نے سی پیک کے حوالے سے چین کے تحفظات پر بھی گفتگو کی .