سٹی42: سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت بحال کرنے اور پاکستان سے بجلی بھارت کو بیچنے کی تجویز دے دی۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ "تلخ مارضی کو فراموش کر کے آگے بڑھنے" کی بھی تجویز دے دی۔
میاں نواز شریف نے یہ تجویزیں بھارت سے آئے ہوئے بعض صحافیوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے پیش کیں۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق ایس سی او اجلاس کی کوریج کے لیے پاکستان آئے بھارتی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف نے کہا، "بھارت کو بجلی چاہیے ، پاکستان کے پاس بہت بجلی ہے ، یہ بجلی ضرور بھارت کو بیچنی چاہیے، پاکستان کی طرف سے بھارت کو سستی بجلی بیچنے کے حق میں ہوں، یہ ضرورکرنا چاہیے۔"
نواز شریف نے کہا کہ صرف موسمیاتی تبدیلی پر تعاون نہیں، دونوں ملکوں کو تجارت شروع کرنی چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرنا چاہیے، تعلقات اچھے ہوجائیں تو ضرورت کا سامان دو گھنٹے میں پاکستان آسکتا ہے۔
نواز شریف نے کئی سال سے بند تجارت شروع کرنے کی تجویز پر ہی بس نہیں کیا، انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنا چاہیے، بھارتی کرکٹ ٹیم سے پوچھیں تو وہ بھی کہیں گے پاکستان آ کر کھیلنا ہے۔ کرکٹ کھیلنے پر راضی بھارتی کرکٹ ٹیم کو اجازت دینے والے اجازت نہیں دیتے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان آئے گی تو کرکٹ کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
نواز شریف نے جن کو بھارت کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نریندر مودی کا ذاتی دوست بھی تصور کیا جاتا ہے، بھارتی صحافیوں سے گفتگو کے دوران یہ بھی کہا کہ نریندر مودی اگر ایس سی او سمٹ پر پاکستان آتے تو بہت اچھا ہوتا، بھارتی وزیراعظ٘م نہیں آئے مگر وزیر خارجہ آئے، یہ بھی اچھی بات ہے۔ نواز شریف نے کہا، ایس سی او سے پاک بھارت تعلقات کی اچھی شروعات ہو سکتی ہے۔
بھارتی صحافیوں کے ساتھ نواز شریف کی ملاقات کے موقع پر پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز ن بھی موجود تھیں۔ مریم نواز نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بھارتی پنجاب دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت اور پاکستان کے پنجاب کو ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنےکو مل سکتا ہے۔
نواز شریف کی بھارت کے ساتھ کئی سال سے بند تجارت کھولنے کی خواہش پاکستانیوں کے لئے اجنبی خیال نہیں، نواز شریف کے سیاست میں قریبی ترین مشیر اور موجودہ اور الیکشن 2024 سے پہلے کی اتحادی حکومت کے اہم پالیسی ساز وزیر اسحاق ڈار بھی بار ہا اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ پاکستان کی تجارت بحال ہو جانا چاہئے۔
اسحاق ڈار نے وزیر خارجہ بننے کے کچھ ہی دن بعد یکم اپریل 2024 کو ایک انٹرویو میں پڑوسی اور سخت مخالف بھارت کے ساتھ تجارت کو دوبارہ کھولنے کی خواہش کا اشارہ دیا تھا جسے اس وقت میڈیا نے ایک ایسی خواہش گردانا تھا جس پر عمل کیا گیا تو یہ ایک بڑی سفارتی تبدیلی کا نشان بن سکتی تھی۔
اسلام آباد نے 2019 میں دہلی کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد تجارت معطل کر دی تھی، جس کا ایک اہم سبب ہندوستان کے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر سے قانون سازی کی خود مختاری (آرٹیکل 370) کو ختم کرنے کا فیصلہ تھا، اور تب سے بھارت سے تجارت کر کے پیسہ کمانے کے خواہشمند پاکستانی تاجر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
پاکستان کشمیر میں اس تحریک آزادی کا کھلا پروموٹر اور پشت پناہ رہا ہے جس کے سبب ہزاروں کشمیری نوجوان بے دردی سے قتل کئے گئے اور ہزاروں بھارت کی جیلوں میں سڑ گئے۔ نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں بھارت کی داخلی سیاست مین اپنا قبضہ پکا کرنے کے لئے آئین سے آرٹیکل 370 ختم کیا تو اس کی جتنی مخالفت کشمیریوں نے کی اس سے زیادہ مخالفت بھارت کے اندر جمہوری سوچ رکھنے والی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی کی لیکن پاکستان میں اس دور رس اقدام پر عمومی خاموشی رہی تاہم "اسٹیبلشمنٹ" نے پاکستان بھارت تجارت ضرور بند کروا دی جو اب تک بند ہے۔