نواز شریف کا پہلا دور حکومت تھا۔ اسحاق خان صدر اور نواز شریف وزیر اعظم لیکن حسب روایت دونوں میں ٹھن گئی ۔غلام اسحاق خان نے حکومت کو چلتا کیا ،اور دوبارہ انتخابات کا شور مچادیا ،بچے اسحاق خان بھی نہیں ،دونوں گھر گئے۔ جس دن اسمبلی ٹوٹی تو لاہور ریلوے روڈ پر ایک کونسلر مقصود کی بیٹھک میں شہباز شریف کی آمد ہوئی۔ میں ے بھرے مجمے میں کہا "میاں صاحب کیا ضرورت تھی بم کو لات مارنے کی ؟" شہباز شریف نے کہا ہمیں معلوم نہیں کہ اچھی خاصی چلتی حکومت کو کیوں چلتا کیا۔ شہباز شریف گئے تو چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔ دونوں بھائیوں کی حکومت تو گئی اب ان کی سیاست بھی نہیں بچے گی۔ اب نہ ضیاء الحق ہے نہ جنرل غلام جیلانی یہ دولت کے بل پر سامنے آئے اب دوبارہ نہیں آئیں گے لیکن پھر ہوا کیا ، بے نظیر حکومت کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی نامزد کردہ صدر بے نظیر کے دیرینہ ساتھی فاروق لغاری نے گھر بھجوا دیا اور یوں ایک بار پھر قسمت کی دیوی نواز شریف پر مہربان ہوگئی اور وہ تمام سیاسی پنڈت ناکام ہوئے اور نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے۔
نواز شریف کا یہ دور بھی بڑا ہنگامہ خیز رہا دو تہائی اکثریت برائے نام اپوزیشن تمام سیاہ و سفید کے مالک صدر رفیق تاڑر بھی مسلم لیگ سے بس یوں سمجھیں کہ راوی چہار جانب سکون اور میاں صاحب کی شہنشاہیت کے ڈنکے بجا رہا تھا لیکن پھر نامعلوم قوت متحرک ہوئی، 1999 میں اسوقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تحتہ اُلٹ دیا، نواز شریف کو گرفتار کرلیا گیا الزامات سنگین نوعیت کے تھے جن میں ملک سے غداری اور بھارت دوستی کے علاوہ آرمی چیف کا طیارہ اغوا کرنے اور اسے بھارت اُترنے پر مجبور کرنے جیسے الزامات تھے ۔(یہ ویسے کسی نے پھر نہیں بتایا کہ اگر طیارہ اغواتھا تو بھارت اُترا کیوں نہیں ؟ ) بہرکیف نوازشریف بمعہ اہل و عیال نظر بند ہوگئے ،سیاسی پنڈت بمعہ اپنے بچے شیخ رشید کے سامنے آئے کم از کم سزا پھانسی تجویز کی جانے لگی عدالتوں نے دو قومی نظریہ اور نطریہ پاکستان کے بعد ایک نئی اصطلاح " نظریہ ضرورت" کی ایجاد کی اور مشرف کے مارشل لاء کو قانونی تحفظ فراہم کیا پرویز مشرف نے مسلم لیگ کے دوٹکڑے کیے اور یوں ایک نئی مسلم لیگ بنائی گئی ،جسے مسلم لیگ قائد اعظم کا نام دیا ، چودھری شجاعت اور پرویز الہیٰ اس جماعت کے روح رواں بنے ، شیخ رشید "شامل واجا" اور یوں پنڈتوں نے اپنی اپنی کنڈلیاں نکال کر پیش گوائیاں کی کہ نواز شریف اب ہم میں نہیں رہے ان کی سیاست کا سورج عین حالت شباب میں ڈبو دیا گیا عدالتوں میں کیس چلے، اٹک جیل میں پونے دو سال قید کاٹنے کے بعد والد صاحب کی فوج میں پرانی یاد اللہ اور سعودی سفیر کی مداخلت سے اس شرط پر جلا وطنی کی اجازت ملی کہ میاں نواز شریف دوبارہ سیاست کا نام نہیں لیں گے وہ خاندان کے تمام افراد کے ساتھ سعودی عرب سدھار گئے ۔
پرویز مشرف نے علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے ہیرے تلاش کرکے ق لیگ میں شامل کرائے، امریکہ افغانستان آیا تو ملک میں ڈالر بھی آئے میاں نواز شریف چند سال سعودی عرب میں اپنے العزیزہ محل میں گزارنے کے بعد لندن چلے گئے ، اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر میاں نواز شریف کی شکل میں جمہوریت کا مسیحا تلاش کیا ،ظاہر ہے پنجاب میں پیپلز پارٹی اثر و رسوخ کھو چکی تھی خاموش ہی سہی صرف نواز شریف کے گروپ جسے اب ن لیگ کہا جانے لگا تھا کا نام لیوا بھی پنجاب میں نہ رہا ،لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا ایک جانب بے نظیر بھٹو نے نواز شریف سے لندن میں میثاق جمہوریت کیا دوسری جانب اپنی کرسی بچانے کے لیے اُسوقت کے چیف جسٹس افتخار نے بغاوت کردی معاملہ بڑھ گیا۔ مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پرا ،فوجی قیادت پہلے ہی بدل چکی تھی نواز شریف وطن واپس آئے شاندار استقبال ہوا، پہلے پیپلز پارٹی اور پھر 2013 میں نواز شریف اس ملک کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے ۔
اس دور وزارت عظمیٰ میں بھی سیاسی ریشہ دورانیہ بام عروج پر پہنچیں سیاسی کزنز (عمران ، طاہر القادری ) نے حکومت کو ماننے سے انکار کردیا ،دھرنے ہوئے چائنیز صدر کا دورہ ملتوی ہوا ،بات پانامہ سے شروع ہوکر اقامہ تک پہنچی ایک نئی اصطلاح پھر گھڑی گئی اور گاڈ فادر کہا گیا ،قانون نہ ملا تو "بلیک ڈکشنری" نکال کر ثاقب کھوسائی عدالت نے سزائیں سنائیں، میاں نواز شریف اب کے برے پھنسے تھے عمران خان زیادہ قوت سے سیاست کے افق پر چھا گیا جو سب کا سب کچھ بہا لے گیا ،میاں نواز شریف کو بیماری راس آئی اور ایک بار پھر وہ ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے اب شیخ رشید سمیت تمام چیلوں چانٹوں نے پیش گوئیاں شروع کی، ن میں سے ش نکالی اور نواز شریف کی سیاست کو خدا حافظ کہہ دیا ۔
لیکن ہوا کیا آج مرکز میں نواز شریف کا بھائی وزیر اعظم ہے اور پنجاب میں اُس کی دُختر مریم وزیر اعلیٰ اور نواز شریف سیاست کا گاڈ فادر بنا بیٹھا ہے، مجھے یہ خیال اُس خبر کے پڑھ کر آیا کہ جس میں پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں بشمول صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سب آستانہ عالیہ جاتی اُمرا شریف پر حاضر ہوئے ۔ آئینی ترمیم کے لیے سب نواز شریف فارمولے کے منتظر تھے نواز شریف کا ایک اشارہ سارا نظام بدل سکتا تھا اور سب وہاں سے سیاسی فیوض و برکات سمیٹ کر اپنے گھروں کو گئے ،آئینی ترمیم میں جو ترمیم تجویز کی گئی ہے اس کے مطابق آئینی عدالتیں نہ بھی بنیں تو آئینی مستقل بنچ بن جائے گا قاضی کہیں نہیں جائے گا کان سیدھے سے نہیں الٹے سے پکڑا جائے گا