ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

"عدالتی اصلاحات پر اتفاق" ، "آئینی عدالت" کی بجائے آئینی بینچ پر بھی اتفاق، ضمنی مسائل باقی رہ گئے

Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے جاتی امرا میں نواز شریف کا کھانا کھانے کے بعد نیوز کانفرنس میں اقرار کر لیا کہ ان کا عدلیہ میں اصلاحات کے متعلق مجوزہ آئینی ترامیم پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ساتھ اتفاق ہو چکا ہے۔ 

لاہور کے نواحی علاقہ جاتی امرا میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر رات کے کھانے کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ میں تین بڑی طاقتوں کے سربراہوں اور ان کے ساتھی سیاستدانوں کی باہم ملاقات ہوئی جس میں آئینی ترامیم کے متعلق مزید بات چیت ہوئی۔ اس ملاقات  عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم پر مسلم لیگ نون ، پی پی پی اور جے یو آئی کا اتفاق ہوگیا۔ 

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں نے عدالتی اصلاحات پر اتفاق رائے ہونے کا اعلان  میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ 

صدر ن لیگ نواز شریف کی میزبانی میں ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں بدھ کی شب  اہم سیاسی قائدین کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، پیپلزپارٹی کے چیئرمیں بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمان اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ شریک ہوئے۔

عشائیے میں شرکت کیلئے آنے والوں کا نوازشریف اور ان کے چھوٹے بھائی وزیراعظم شہبازشریف نے گھر کے دروازے پر  استقبال کیا تھا۔  
جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات میں نوازشریف، فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کے درمیان 26 ویں آئینی ترمیم پر  آخری تبادلہِ خیال ہوا۔  


اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو لرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جے یوآئی آئینی ترمیم پر مشاورت کیلئے  پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملےگی،  پیپلز پارٹی سے مجوزہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کیا تھا، نوازشریف نے عشائیے میں دعوت دی تھی، صدر زرداری بھی آئے تھے۔

مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیاکہ ہم نے عدلیہ سے متعلق اصلاحات پر اتفاق رائے کرلیا ہے، دیگر مجوزہ ترامیم پر بھی مشاورت کریں گے، انہوں نے دہرایا کہ انہوں نے اس موضوع پر ابتدائی ترمیم کو مسترد کیا تھا، اسے آج بھی مسترد کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا،  حکومتی پارٹیوں سے جےیوآئی نے مذاکرات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا، ، اہم مسائل پر تفصیل سے بات چیت کی تو ملک بھی بچےگا،آئین بھی بچےگا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر ہم ایک ادارہ کو دوسرے اداروں پر ایسی بالادستی دیں گے کہ جس کے بعد پارلیمنٹ اور سیاست کی کوئی اہمیت نہین رہے گی تو اس طرح کی ترامیم کے ہم حق میں نہیں ہیں۔ 

کل اتفاق رائے دو جماعتوں کے درمیان، آج تین جماعتوں میں؛ مناسب موقع پر ترامیم کو پارلیمنٹ میں لائیں گے، بلاول بھٹو

 مولانا فضل الرحمان کے بعد بلاول بھٹو نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی۔   چیئرمئین بلاول بھٹو  نے کہا کہایک بار پھر  مولانا فضل الرحمان کے شکرگزارہیں کہ کل ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے درمیان تفصیلی میٹنگ   آئینی ترامیم، 26 ویں امینڈمنٹ، جوڈیشل ریفارمز کے ھوالے سے جو  اتفاق  رائے پیدا ہوا تھا، وہ اتفاق رائے آج تین جماعتوں میں بھی ہوا، بلاول بھٹو نے کہا کہ جوڈیشل ریفارمز کے ذریعہ  پارلیمنٹ اور آئین کی بالا دستی چاہتے ہیں۔ وہ آئین جس پر مولانا فضل الرحمان اور میرے بڑوں نے دستخط کئے ہیں، 

ہم عوام کو  سستا اور فوری انصاف دلوانا چاہتے ہیں۔ ہم وہ ترامیم لا رہے ہیں جن کے ساتھ ہم اس آئین  کا تحفظ کر سکیں۔ ان ریفارمز کے بعد عوام کو نظر آئے گا کہ آئین کی تشریح کرنے اور آئین کے دفاع کرنے  اور آئین کو توڑنے، آئین میں سے اپنی مرضی کے مطلب نکالنے  اور اپنے مقاصد ضحاصل کرنے مین کیا فرق ہے۔ 

بلاول بھتو نے  کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ہم اتفاق رائے پر بڑھتے جا رہے ہیں۔  آئینی عدالتوں کے ذریعے آئین کی بالادستی، فوری انصاف چاہتےہیں۔

 بلاول نے یہ بھی بتایا،" مناسب وقت پر مجوزہ ترمیم کو دونوں ایوانوں سے پاس کرائیں گے۔"

عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پر اتفاق، دیگر مجوزہ ترامیم پر بھی اتفاق ہو جائے گا

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار  نے مسلم لیگ نون اور حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پر تین پارٹیوں کا اتفاق رائے ہوچکا ہے، دیگر مجوزہ ترامیم سے متعلق آئندہ دنوں میں اتفاق ہوجائےگا۔

مولانا پی ٹی آئی کو آن بورڈ لیں گے

اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل (آج)  اسلام آباد پہنچ کر پی ٹی آئی قیادت سے ملاقات کرونگا اور پی ٹی آئی قیادت کی رائے آئینی ترمیم میں شامل کریں گے۔

 گزشتہ روز  پیپلز پارٹی اور جے یو آئی  کے درمیان آئینی مسودے پر اتفاق ہو جانے کی اطلاعات کی دونوں جماعتوں کے ذرائع نے تصدیق کی تھی اور بلاول بھٹو نے بھی یہی بتایا تھا تاہم آج مولانا فضل الرحمان کے میڈیا کے سامنے بیان سے یہ معلوم ہوا کہ آئینی ترامیم کے مجوزہ حکومتی پیکیج پر جس میں "آئینی عدالت" کا سپریم کورٹ سے الگ آئینی وجود ایک بنیادی کمپوننٹ ہے، مولانا فضل الرحمان کی رائے یکسر مختلف ہے۔ اس "آئینی عدالت  کے آئیڈیا کے بنیادی خالق اور پیشکار بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مدبر دانشور ہیں، مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف جو چارٹر آف ڈیموکریسی کے سائینی بھی ہیں، انہیں اس ترمیم سے مکمل اتفاق ہے جس کا اظہار انہوں نے آج کی میٹنگ کے دوران بھی کیا۔ تاہم نواز شریف اور بلاول بھتو دونوں مولانا فضل الرحمان کو آن بورڈ لینے کے لئے  سپریمکورٹ سے الگ "آئینی عدالت" کی تجویز کو بدل کر سپریم کورٹ کے اندر ہی آئینی بینچ قائم کرنے کی حد تک اپنے مؤقف میں لچک لانے پر کھلے دل سے آمادہ ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان کی اس ضد کو ماننے پر دونوں تیار نہیں کہ نئے آئینی بنچ میں پانچ جج لئے جائین جو سپریم کورٹ کی موجودہ سنیارٹی لسٹ  مین سب سے سینئیر پانچ جج ہوں۔ اس نکتہ پر  پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کی سینئیر قیادت متفق ہے کہ موجودہ سنیارٹی لسٹ پر موجود پانچ ججوں کو لے کر آئینی بنچ بنانا بے مقصد  عمل ہو گا کیونکہ ان مین وہ جج بھی شامل ہیں جن سے آئین کی تشریح کے نام پر من چاہے فیصلے پارلیمنٹ اور عوام پر مسلط کرنے کی سنگین شکایات نے آئینی عدالت کی ضرورت اور ناگزیریت پر سیاسی قیادت کو متفق کیا۔   مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے مزید بات چیت کیلئے آج اسلام آباد میں ان سے ملاقات کرنے کا اعلان کیا۔  ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے بنیادی آئیڈیا سے کتنا پیچھے ہٹ سکے گی اور یہ معاملہ  مزید کتنے دن میں، کتنی ملاقاتوں کے بعد کسی منطقی نتیجہ تک پہنچے گا۔

بعض ذرائع کے مطابق جاتی امرا میں سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کی پہلی نشست میں آئینی عدالتوں کے مسودے پر اتفاق نہ ہو سکا۔اس کے بعد تینوں سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ملاقات کا دوسرا دور ہوا، مسلم لیگ ن کے تحفظات اور ڈیڈلاک برقرارہیں۔

 ذرائع نے بتایا کہ جے یو آئی نےالگ آئینی عدالت بنانے کی بجائے سپریم کورٹ کے موجودہ ڈھانچہ میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ میں ہی  آئینی بنچ بنانے کی تجویز دی تو  مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپارٹی آئینی بنچ بنانے پر متفق ہو گئے۔

مسلم لیگ  نون نے اس ضمن میں سپریم کورٹ کی موجودہ سنیارٹی لسٹ پر موجود سینئیر موسٹ  5 ججز کے بجائے ایک با اختیار کمیٹی کے ذریعے آئینی بنچ میں ججز تعینات کرنے کی  تجویز دی۔  مسلم لیگ نون نے پہلے آپشن کے طور پر  آئینی عدالت بنانے کی تجویز دی،دوسرا آپشن "آئینی بنچ" بنانا ہے تو جوڈیشل پارلیمانی کمیٹی ججز کے نام کی منظوری دے۔

میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد  کیلئے نواز شریف اور صدر آصف زرداری کا اصرار

ذمہ دار ذرائع کے مطابق بدھ کی شب کے  اجلاس میں نوازشریف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں میثاق جمہوریت کی شقوں پر عملدرآمد ہو،ملک کوسب نے ملکر آگے لے کر چلنا ہے،آصف زرداری نے کہاکہ میاں صاحب میثاق جمہوریت کی تمام شقوں پرعملدرآمد کرنے کا وقت ہے۔

 "آئینی عدالت" کا قیام بنیادی طور پر چارٹر آف ڈیموکریسی کی 18 سال پہلے لکھی گئی دستاویز کا ایک اہم نکتہ ہے جس پر مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت نے طوئل مشاورتوں کے بعد دستخط کئے تھے۔ اس چارٹر کے تحت ہی 18 وین ترمیم میں شامل بہت سی اصلاحات کا پیکیج پارلیمنٹ سے منطور کروا کر آئین کا حصہ بنایا گیا تاہم چارٹر کے کئی اہم نکات اب تک رو بہ عمل نہیں لائے جا سکے۔