نشتر پارک (سٹی42) سابق کپتان فضل محمود اور عبدالقادر کو پی سی بی کے ہال آف فیم میں شامل کر لیا گیا، اس سے قبل حنیف محمد، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس اور ظہیر عباس آئی سی سی ہال آف فیمرزکی حیثیت سے پی سی بی کے ہال آف فیم میں شامل ہوچکے ہیں۔
سابق کپتان فضل محمود اور عبدالقادر کو ووٹنگ کے ایک شفاف عمل کے تحت پی سی بی کے ہال آف فیم کا حصہ بنایا گیا ہے، اس عمل کے تحت پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی نے چند نامور کھلاڑیوں کی فہرست تشکیل دی۔ اس فہرست میں انہیں شامل کیا گیا جنہیں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیے ہوئے کم از کم پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔ اس حوالے سے 13 رکنی آزاد ووٹنگ پینل میں آئی سی سی ہال آف فیم کے تین ارکان، پاکستان کے چار سابق کپتانوں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے چھ صحافیوں نے ووٹ کا استعمال کیا۔
ایک انٹرنل آڈیٹر نے اس عمل کی نگرانی کی۔ جاری اعلامیہ کے مطابق پی سی بی ہال آف فیم میں شامل آٹھ کھلاڑیوں (بشمول پاکستان سے تعلق رکھنے والے آئی سی سی کے چھ ہال آف فیمرز) کی باضابطہ شمولیت اس کرکٹ سیزن کے دوران کی جائے گی۔چیئرمین پی سی بی رمیزراجہ نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ فضل محمود اور عبدالقادر، دو مختلف ادوار میں کرکٹ کے لیجنڈز رہے ہیں، ان دونوں کھلاڑیوں کو اپنے ساتھیوں اور مداحوں کی طرف سے پی سی بی ہال آف فیم میں شامل کرنا ان کی مقبولیت اور کھیل کے لیے خدمات کا اعتراف ہے۔
چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ فضل محمود کی بہادری نے پاکستان کرکٹ کو ابتدائی ایام میں دنیا کے سامنے ایک قوت کے طور پر متعارف کرایا۔ انہوں نے اپنے کھیل کے ذریعے نوجوانوں کو فاسٹ باؤلنگ کے لیے بھی متاثر کیا۔ جادوگر اسپنر عبدالقادر نے کلائی کے استعمال سے اسپن باؤلنگ کے ختم ہونے والے فن کو دوبارہ زندہ کیا، انہوں نے کہا کہ فضل محمود اور عبدالقادر دوشاندار کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور عالمی کرکٹ کے شاندار سفیر بھی تھے۔
فضل محمود کو پاکستان کی کرکٹ کا سب سے پہلا سپر اسٹار مانا جاتا ہے، وہ 18 فروری 1927 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1952 سے 1962 تک 34 ٹیسٹ میں 139 وکٹیں حاصل کیں جن میں 13 مرتبہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں اور ایک میچ میں چار مرتبہ 10 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنا شامل تھا۔ تاہم ، ان کے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز چھ سال قبل ہوا تھا جب انہوں نے رانجی ٹرافی میں شمالی ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔ انہوں نے 112 میچوں میں 466 وکٹیں حاصل کیں۔
1952 میں بھارت میں پاکستان کی پہلی ٹیسٹ سیریز میں ، فضل محمود نے 20 وکٹیں حاصل کیں ، جس میں لکھنؤ ٹیسٹ میں 12 وکٹیں کرنا بھی شامل تھا۔ پاکستان نییہ ٹیسٹ ایک اننگز اور 43 رنز سے جیتا تھا۔ سیزن 55ـ1954 میں فضل محمود نے چار ٹیسٹ میچز میں 15 وکٹیں حاصل کیں ، جبکہ سیزن 61ـ1960 میں انہوں نے پانچ ٹیسٹ میچز میں نو وکٹیں حاصل کیں۔
فضل محمود 1955 میں ویزڈن کے پانچ کرکٹرز آف دی ایئر میں شامل ہونے والے پہلے پاکستانی کرکٹر تھے، ایک سال بعد ان کی پرفارمنس نے پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف اپنی پہلی سیریز ڈرا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے چار ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز میں 20 وکٹیں حاصل کیں۔فضل محمود نے سیزن 58ـ1957 میں دورہ کیریبین میں 20 وکٹیں حاصل کیں۔ انہیں 1958 میں صدر پاکستا ن نے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا گیا۔ 2012 میں انہیں پاکستان کرکٹ کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں ہلال امتیاز، دوسرا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔
عبد القادر نے کْل 236 وکٹیں حاصل کیں (15 مرتبہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں اور پانچ مرتبہ ایک میچ میں 10 وکٹیں) اور 1029 رنز بنائے، وہ ایک روزہ کرکٹ میں انتہائی کارآمد ثابت ہو تے تھے۔ 132 وکٹیں حاصل کر کے انہوں نے 1984 سے 1993 تک 104 ون ڈے میں 641 رنز بنائے۔ 1975 سے 1995 تک 209 فرسٹ کلاس میچز میں انہوں نے 960 وکٹیں حاصل کیں اور 3،740 رنز بنائے ، جس میں دو سنچریاں بھی شامل ہیں۔
15 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہونے والے عبدالقادر نے 1977 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور حیدرآباد میں صرف اپنے دوسرے میچ میں چھ وکٹیں حاصل کیں،انہیں کچھ ہی عرصیبعد اپنی نوعیت کی "سب سے قابل ذکر دریافت" قرار دیا، انہوں نے لاہور میں کھیلے گئے ایک میچ میں نے 56 رنز کے عوض 9 وکٹیں حاصل کیں، عبدالقادر کے یادگار باؤلنگ سپلیز میں سے ایک فیصل آباد ٹیسٹ1986 میں مضبوط ویسٹ انڈیز کے خلاف شامل تھا۔
انہوں نے اس میچ میں ویو رچرڈز کی ٹیم کو 53 رنز پر آؤٹ کرکے پاکستان کو 186 رنز سے فتح دلا دی، عبدالقادر 1983 اور 1987 کے ورلڈ کپ میں بھی نمایاں رہے، انہوں نے نو میچوں میں 24 وکٹیں حاصل کیں، جن میں سری لنکا کے خلاف ہیڈن گلے میں 44 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کرنا بھی شامل تھا۔1988 میں ، عبدالقادر کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا ، جبکہ 2020 میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، جو پاکستان کا تیسرا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہے