وسیم عظمت: جوڑ توڑ کے گورو، فساد اور سازش کے زریعہ ریلوے پلیٹ فارم سے اٹھ کر بھارت کے پرائم منسٹر ہاؤس تک پہنچنے والے شاطر نریندرا مودی کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ جھاڑ کھنڈ میں ان کی سازش کامیاب ہو کر بھی انہیں کو دھکا دے کر جھاڑ کھنڈ سے باہر پھینک دے گی۔
جھاڑ کھنڈ ریاستی اسمبلی کے الیکشن کے پہلے مرحلہ میں یہ ہو چکا ہے اور اس ریاست کے اقتدار کو چھیننے کے لئے مکتی مورچہ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کو کرپشن کا کیس بنوا کر جیل میں ڈالنے کی مودی کی آزمودہ سازش ہی اس یقنی انتخابی شکست کی بڑی وجہ بنی ہے کیونکہ ہیمنت کا جیل جانا ان کی "شکتی شالی پتنی " کلپنا مرمو سورین کو سیاست میں گھسیٹ لایا۔
اب سابق فوجی کی قبائلی بیٹی، وہ کلپنا جو شوہر کے جیل جانے کے بعد اس کا امیج بچانے کیلئے گھر سے نکلی تھی، چھ ماہ کے تجربہ سے ہی جھاڑ کھنڈ کی سٹار کیمپینر بن چکی ہیں اور جہاں جاتی ہیں پرجا کے دِل پلٹ کر فاتح مہارانی کی طرح لوٹتی ہیں۔
13 نومبر کو الیکشن کے پہلے راؤنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے الائنس کا تقریباً صفایا ہو چکا ہے، رہی سہی کسر چند روز بعد ہونے والے دوسرے راؤنڈ میں نکل رہی ہے۔
جھارکھنڈ کے 81 اسمبلی حلقوں میں سے 43 میں 13 نومبر کو شام 7 بجے تک 64.95 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔
الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ "متاثر کن" تھا کیونکہ اس نے 2019 کے اسمبلی انتخابات کے دوران ان 43 سیٹوں پر ریکارڈ کیے گئے 63.9 فیصد ٹرن آؤٹ کو پہلے ہی عبور کر لیا ہے۔
13 نومبر کو بھارت بھر میں 31 اسمبلی ضمنی انتخابات میں بھی پولنگ ہوئی، جن میں راجستھان کی سات، آسام کی پانچ اور بہار کی چار نشستیں شامل ہیں۔
کلپنا مرمو سورین کی سیاست کا آغاز بی جے پی کی ریاست سے بے دخلی کا بھی آغاز بن گیا
کلپنا مرمو سورین نے 4 مارچ 2024 کو سیاست میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے شوہر ہیمنت سورین کی 31 جنوری کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) کے ذریعے گرفتاری کے بعد ان کے پاس ایک یہ ہی راستہ تھا جس پر چل کر وہ اپنے شوہر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے سازشی انتقام سے بچا سکتی تھیں۔ انہوں نے یہ کر ڈالا۔ ان کے شوہر ہیمنت سورین کو تو چھ ماہ جیل میں رہنے کے بعد جون میں ضمانت پر رہائی مل گئی لیکن اس دوران کلپنا جھاڑ کھنڈ کے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکی تھیں۔ حالیہ ریاستی اسمبلی الیکشن میں جھاڑ کھنڈ مکتی مورچہ نے انہیں کیمپین میں تھوڑی سی جگہ دی تو باقی بہت سی جگہ عوام نے دلوا دی جو ان کے جلوسوں اور جلسوں میں دیوانہ وار امنڈتے چلے آئے اور انہیں پرائم کیمپینر کا رتبہ دلوا دیا، یہی نہیں بلکہ ریاست میں کلپنا کی مقبولیت کی ایسی ہوا چلی کہ بھاجپا کے تمام الزام تراشی، تقسیم کرنے اور فساد ڈالنے کے گورو اور پنڈت سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ نئے پرانے، قبائلی غیر قبائلی سبھی ووٹر کلپنا کی بات کو جلدی سمجھتے ہیں اور تقسیم کی سیاست انہیں نہ پہلے قائل کر سکی نہ اب وہ اسے توجہ کے لائق سمجھتے ہیں۔
کلپنا نے 13 نومبر کو ریاست کا الیکشن آدھا جیتنے کے بعدایک انٹرویو میں کہا، ’خواتین کو بہت کچھ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، جیسے درد (جسمانی طور پر) لیکن میں اب بھی کھڑی ہوں‘۔ کلپنا نے اپنی کیمپین کی شاندار پذیرائی کے بنیادی فیکٹر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا، "جے ایم ایم ترقی کی بات کرتا ہے، اور وہ (بھارتیہ جنتا پارٹی) لوگوں کو مسائل کے متعلق گمراہ کرتے ہیں۔ جھارکھنڈ کے لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی اپنی نچلی سطح تک گرسکتی ہے"۔
جھارکھنڈ میں بی جے پی کی انتخابی مہم: وعدے اور حقائق کا مقابلہ
جھارکھنڈ میں 2024 کے انتخابات میں نریندر مودی نے بی جے پی کی پوری طاقت لگا دی، مقصد ریاست میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے زیادہ اپنی شکست کے آن سلاٹ کو کسی طرح روکنا ہے، مودی کو معلوم ہے کہ جھاڑ کھنڈ مین شکست یہیں نہیں رکے گی، اس کے بعد دوسری ریاستوں تک اس کا اثر جائے گا اور چند روز بعد ہونے والے ضمنی الیکشن میں انہیں ہزیمت اٹھانا پرے گی۔ جھاڑ کھنڈ میں کیمپین کے دوران بی جے پی کو اپنے ماضی کی ریاستی حکومت کی ناکامیوں اور علاقائی مسائل کا سامنا کرنا پڑ ا جن میں سے بیشتر خود اسی کی تقسیم کی سیاست کے پیداکردہ ہیں۔
مودی ساری بھاجپا کو جھاڑ کھنڈ اٹھا لائے
گوا، منی پور، ناگالینڈ اور ہماچل پردیش جیسی ریاستوں سے کچھ بڑی جھارکھنڈ میں 81 سیٹوں پر مشتمل اسمبلی کے الیکشن میں کلپنا فیکٹر اور دیگر عوامل کے زیر اثر ہوا کا رخ اپنے سخت مخالف ہوتا دیکھ کر نریندر مودی نے یہاں کے انتخابات میں بی جے پی کی پوری طاقت جھونک دی۔ کانگریس کے صدر، ملکارجن کھڑگے نے نومبر کے پہلے ہفتے میں طنزیہ انداز میں کہا کہ بی جے پی نے جھارکھنڈ کے 68 امیدواروں کے لیے جتنے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی وزراء کو میدان میں اتارا ہے، وہ بی جے پی کے تمام امیدواروں سے زیادہ ہیں۔ آسام کے وزیراعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے مہینوں سے یہاں ڈیرہ ڈال رکھا ہے، یوگی آدتیہ ناتھ، شیوراج سنگھ چوہان، راج ناتھ سنگھ، امت شاہ اور حتیٰ کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی مسلسل یہاں آتے رہے۔
جھارکھنڈ میں بی جے پی کے لیے ہارنے کا آپشن نہیں ہے کیونکہ اگر وہ ہار جاتی ہے تو اسے اپوزیشن کے شدید حملے برداشت کرنے ہوں گے۔ جھارکھنڈ کی معدنی دولت، جیسے کوئلہ، لوہا، باکسائٹ، یورینیم اور سونے کے وسیع ذخائر کی موجودگی، اس ریاست کو کارپوریٹ سیکٹر اور ٹھیکیداروں کے لئے انتہائی پرکشش بناتی ہے۔ اس کے علاوہ، مودی کی سرپرست گجراتی کمپنی (اڈانی گروپ) بھی یہاں ایسی حکومت چاہتی ہے جو زیادہ لچکدار اور بی جے پی کی حامی ہو۔ جو عوامل بی جے پی کو زیادہ شدت کے ساتھ کوشش کی طرف دھکیل رہے تھے دراصل وہی عوامل جھاڑ کھنڈ کی قبائلی اور شیڈولڈ کاسٹ پبلک کو اور اس کے ساتھ کمپنیوں سے نالاں لوئر مڈل کلاس کو بھاجپا سے دور بھگا رہے تھے،
2011 کی پرانی مردم شماری کے مطابق، جھارکھنڈ کی آبادی میں 26 فیصد شیڈولڈ ٹرائب کی نمائندگی ہے، جن کے لیے 28 سیٹیں مخصوص ہیں۔ 2019 کے انتخابات میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ، کانگریس اور آر جے ڈی کے اتحاد نے 47 سیٹیں جیتیں، جن میں 26 مخصوص سیٹیں بھی شامل تھیں۔ بی جے پی صرف 2 مخصوص سیٹیں جیت سکی اور کولہان علاقے کی تمام 14 سیٹیں ہار گئی۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ جھارکھنڈ پر حکمرانی اس کا حق ہے، کیونکہ 2000 میں اسی نے اسے بہار سے الگ کر کے نیا ریاست بنایا تھا۔ گزشتہ 24 سالوں میں بی جے پی نے 13 سال یہاں حکومت کی، جبکہ باقی 11 سال میں سے چھ سال غیر مستحکم حکومتوں کے تھے اور پچھلے پانچ سال جھارکھنڈ مکتی مورچہ، کانگریس اور آر جے ڈی کے اتحاد کے ہیں۔
اگرچہ بی جے پی کو کارپوریٹ، آر ایس ایس اور مائننگ لابی کی حمایت حاصل رہی، لیکن اندرونی خلفشار اور بغاوت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بی جے پی کے کئی امیدواروں کے ساتھ عوام میں عدم اطمینان اور کچھ سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ناپسندیدہ امیدواروں نے بھی اس کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور کانگریس پر "خاندانی حکمرانی" کا الزام لگانے والی بی جے پی کے کئی امیدوار خود سیاسی خاندانوں سے ہیں۔
جب ہر دعویٰ بے بنیاد نظر آنے لگے
الیکشن کیمپین کے دوران وزیراعظم مودی سے لے کر امیت شاہ، ہیمنت بسوا سرما سے لے کر راج ناتھ سنگھ، شیو راج سنگھ چوہان سے لے کر نشی کانت دوبے تک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما ریاست میں غیرقانونی ہجرت کی بات کرتے رہے، لیکن آزاد تحقیقاتی ٹیموں کو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے کہا، غیر قانونی ہجرت سے نمٹنا بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی ذمہ داری ہے۔ بی جے پی رہنما مردم شماری کے اعدادوشمار کا حوالہ دے کر دعویٰ کرتے ہیں کہ سن 1951 میں سنتھال پرگنا کی 44 فیصد قبائلی آبادی 2011 میں کم ہو کر محض 28 فیصد رہ گئی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہے، لیکن 2011 کی مردم شماری کے مطابق سنتھال پرگنہ میں مسلمان کل آبادی کا 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔ ان الزامات اور تقابل کا مقصد کسی کا بھلا نہیں محض تقسیم پیدا کرنا اورگمراہ کرنا رہا،
جھارکھنڈ جنادھیکار مہاسبھا کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے سنتھال پرگنا میں اس معاملے کی تحقیق کی اور ان الزامات کو بے بنیاد پایا۔ ان کے بیان کے مطابق قبائلیوں کی تعداد میں کمی کی بڑی وجہ بلند شرح اموات اور نقل مکانی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سے قبائلی اپنی شناخت کو ہندو شناخت سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں اور زیادہ تر غیر عیسائی قبائلی اپنے مذہب کو ’سرنا‘ کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ چونکہ ’سرنا‘ کو الگ مذہب کی حیثیت نہیں دی گئی، لہٰذا مردم شماری میں انہیں 'دیگر' کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی، بہار اور مغربی بنگال کے علاقوں سے غیر قبائلی افراد کی جھارکھنڈ آمد بھی سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کی تعداد میں کمی کا سبب بنی ہے۔
قبائلیت کو ابھارنے کا الٹا نقصان
پھر سنتھال قبائلی پبلک کو مکتی مورچہ سے جوڑنے والا ایسا فیکٹر میدان میں ہے جس کا بھاجپا کی تقسیمی موشگافیوں میں الجھے گوروؤں کے پاس کوئی توڑ نہیں؛ وہ ہے سنتھالیوں کی بیٹی کلپنا جسے شوہر کی گرفتاری کر کے خود بھاجپا نے سیاست کے میدانِ جنگ میں دھکا دیا۔ سنتھالیوں کو اس کی ترقی کے متعلق آسان فہم باتیں سمجھ آتی ہیں اور وہ مزید کچھ سمجھنے کے لئے کم از کم اس الیکشن کی حد تک تو تیار نہیں۔
ماضی پیچھا کرتا ہے!
بی جے پی کی حکمت عملی میں تقسیم کو فروغ دینے کا ایک بڑا سبب اپنے سابقہ دور حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا بھی ہے۔ پارٹی نہ صرف اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی، بلکہ بھاجپا وزیر اعلیٰ رگھوور داس کے دور میں ’چھوٹا ناگپور کرایہ داری ایکٹ‘ اور ’سنتھال پرگنہ کرایہ داری ایکٹ‘ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس سے حکومت کو عوامی مفاد میں قبائلی اور زرعی زمینوں کو اپنے قبضے میں لینے کا حق مل جاتا۔ تاہم، اس وقت کی گورنر دروپدی مرمو نے اس بل کو دوبارہ غور کے لیے بھیج دیا تھا، اور قبائلیوں کی شدید مخالفت کے بعد حکومت کو بل واپس لینا پڑا۔ اس وقت "پتھل گڑی" تحریک بھی زور پکڑ گئی تھی، جس میں مقامی لوگوں نے اپنے دیہات میں غیر مقامی افراد کے داخلے پر پابندی کے لیے بڑے پتھر نصب کیے تھے۔ ان مظاہروں کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے اور ہزاروں قبائلیوں پر بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے۔ بعد میں ہیمنت سورین کی حکومت نے یہ مقدمات واپس لے لیے۔
بھارت بھر میں برہمن راج اور رام راج کے ہتھیاروں سے ووٹرز کا شکار کرنے والی بی جے پی نے جھاڑکھنڈ میں شوڈولڈ کاسٹ کے بہت زیادہ ووٹ ہونے کے پیش نظر ’یکساں سول کوڈ‘ کا نفاذ کر کے 26 فیصد قبائلی آبادی کو متاثر کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر غیر قبائلی پہلے سے ہی بی جے پی کے حامی رہے ہیں، اس لیے اس اقدام سے بی جے پی کو کوئی خاص فائدہ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔
ریاست کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھاجپا رہنماؤں نے بی جے پی کو بتا دیا ہے کہ اس منصوبے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
مسلمانوں پر "زمین جہاد" کا لیبل تھوپ کر تقسیم کرنے کی سازش
جھارکھنڈ میں مسلمانوں اور قبائلیوں کے درمیان شادیوں کو قبائلی معاشرہ قبول کرتا رہا ہے اور مسلمانوں اور قبائلیوں کے درمیان کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔ اکثر قبائلی خواتین کو زمین وراثت میں نہیں ملتی، اس لیے مسلمانوں پر قبائلی خواتین سے شادی کر کے "زمین جہاد" میں شامل ہونے کے الزامات بھی بے اثر ہیں۔
جھاڑ کھنڈ مکتی مورچہ حکومت نے پانچ سال میں کیا کچھ کر ڈالا
جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی قیادت میں، سب سے غریب ریاستوں میں سے ایک، جھارکھنڈ میں کسانوں کے قرضے معاف کیے گئے، ہر ماہ 11 لاکھ لڑکیوں کو پانچ ہزار روپے دیے جا رہے ہیں، لاکھوں خواتین کو ماہانہ 1100 روپے فراہم کیے جا رہے ہیں، اور 26 لاکھ گھر غریبوں کو دیے گئے ہیں۔ حکومت نے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا اور پولیس اہلکاروں کے لیے سالانہ ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کا اعلان کیا۔
ریاستی حکومت نے طلبہ کو بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ بھی دیئے اور رگھوور داس حکومت کے دور میں منسوخ کیے گئے 11 لاکھ راشن کارڈز کو دوبارہ بحال کر کے عوامی تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا۔
بلڈوزر پالیٹکس خود بلڈوزر کی زد میں!
مسلمان ووٹر اور ہندو ووٹر میں نفرت ابھارنے کے لئے یو پی والے بلڈوزر کی دھمکی بھی الٹی ہی پڑ رہی ہے
یوگی آدتیہ ناتھ جہاں بھی انتخابی مہم چلا رہے ہیں، بی جے پی کارکن ان کا استقبال بی جے پی کے جھنڈوں سے سجے بلڈوزروں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بڑکاگاؤں میں بی جے پی امیدوار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بلڈوزر ایکشن میں نظر آئے گا۔ وہ دراصل اس سمبل کے ذریعہ ہندو بیک گراؤنڈ کے ووٹر کو مسلمان شہریوں کے خلاف ابھار کر اپنے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے کیونکہ جھاڑ کھنڈ یو پی تو بہر حال نہیں۔
کانگریس کی امیدوار امبا پرساد نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کے لیے کمپنی (این ٹی پی سی اور اڈانی) کے دلال کے طور پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی تو لوگوں پر بلڈوزر اور گولیاں چلائی جائیں تو ہمیں حیرت نہیں ہوگی۔" تاہم فی الحال ایسا ہونے کے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
کانگرس نے جیت کا بگل بجا دیا
کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے ہفتہ کو رانچی میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ سے یہ صاف ہو گیا کہ جھارکھنڈ میں انڈیا اتحاد کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہم ان 7 گارنٹیوں کو نافذ کریں گے، جس کا وعدہ ہم نے عوام سے کیا ہے۔ کرناٹک اور تلنگانہ میں ہم نے ایسا کر کے دکھایا بھی ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے اتحاد نے ’میّا سمّان یوجنا‘ کے تحت دسمبر سے 2500 روپے دینے کی گارنٹی دی ہے۔ بی جے پی اسے روکنے کے لیے عدالت پہنچ گئی ہے، اس سے لگتا ہے مرکزی حکومت غریب دشمن اور خواتین مخالف ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ جھارکھنڈ جیسی چھوٹی سی ریاست کے اسمبلی انتخاب میں جس طرح گھوم رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ضلع پریشد اور کارپوریشن کے انتخاب میں بھی گھومیں گے۔ وزیر اعظم کو ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے، بے روز گاری کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘
ملکارجن کھڑگے نے مودی کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا، ہ ’’24 گھنٹے جو انتخاب کے بارے میں سوچتا رہے، ایسا دوسرا کوئی وزیر اعظم نہیں ہوا۔ وزیر اعظم بیرون ممالک کے اتنے دورے کرتے ہیں، انہیں ملک کے مسائل کی بھی جانکاری لینی چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’وزیر اعظم اصل میں عوام کے لیے کچھ نہیں کر رہے، بلکہ اپنی کرسی بچانے کے لیے ہی سب کچھ کر رہے ہیں۔
متنازعہ نعرہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ پر کھڑگے نے کہا کہ دراصل وہ پولرائزیشن کی سیاست کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈ کا کوئلہ اور کانکنی کی رائلٹی "ایک لاکھ چھتیس ہزار" کروڑ روپے بقایا ہے۔ وزیراعظم کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ یہ رقم کب دیں گے۔ دراندازوں کے سوال پر کھڑگے نے کہا کہ سرحد کو سنبھالنا وزیر داخلہ کا کام ہے۔ یہ ان سے سنبھل نہیں رہا، ملک کی حفاظت ان کا کام ہے۔ لیکن اس کی جگہ وہ راہول گاندھی اور مجھے ٹارگٹ کرتے ہیں۔