سٹی42: اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزالل سموتریچ نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ اس وقت تک ختم نہیں کرے گا جب تک حماس کا " صفایا" نہیں ہو جاتا اور "اس کا وجود باقی نہیں رہتاـ انہوں نے اس سے انکار کیا کہ ان کی پالیسی کانتیجہ یہ ہو گا کہ یرغمالی کبھی بھی گھر نہیں آئیں گے۔ لیکن وہ بے حسی کے ساتھ یرغمالیوں کے اہل خانہ کے سامنے جو کچھ کہتے رہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ترجیح کچھ زیادہ "عظیم" ہے۔ انہوں نے یہ باتیں اس وقت کہیں جب ہفتہ 16 اکتوبر کو بھی تل ابیب میں یرغمالیوں کی فوری واپسی کیلئے کچھ بھی کرنے کے مطالبے کو لے کر پروٹیسٹر سڑک پر آئے۔
انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صیہونیت پارٹی کے سربراہ سموتریچ نے منگل کے روز حماس کے تباہ کئے ہوئے کبوتز نیر اوز کا پہلا دورہ کیا اور وہاں سابق یرغمالیوں اور غزہ میں یرغمالیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ چینل 12 پر انٹرویو دیا۔
بیزالل سموتریچ سے پہلا سوال ہی یہ کیا گیا کہ حکومت تمام مغویوں کی رہائی کے بدلے جنگ ختم کرنے کے معاہدے پر کیوں متفق نہیں ہوگی۔ سموتریچ کا جواب تھا: اسرائیل جنگ کے خاتمے کے لیے حماس کے ساتھ کسی معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس [حماس] کا غزہ پر کنٹرول برقرار رہے گا۔
سموتریچ نے اپنے اس مؤقف کے سبب یرغمالیوں کے کبھی گھر واپس نہ پہنچ سکنے کے خدشات ظاہر کرنے والوں سے اختلاف کیا اور کوئی شافی جواب بھی نہ دیا، ان کا موضوع یہی رہا کہ حماس کو تباہ کرنا ضروری ہے۔ سموتریچ جنہیں اسرائیل میں فلسطینیوں کے ساتھ ایل جی بی ٹی کا بھی سخت مخالف سمجھا جاتا ہے اور انتہا پسند ی کی طرف مائل یہودی گروپوں کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے، انہوں نے یرغمالیوں کی بخیریت واپسی کا سوال اٹھائے جانے پر جنگ کے دو مقاصد پر زور دیا: حماس کو تباہ کرنا اور یرغمالیوں کو گھر لانا۔ یرغمالیوں کی واپسی کی رسمی بات کرنے کے ساتھ ان کا یہ ہی کہنا ہے کہ "پہلا مقصد پورا کیا جانا چاہیے، " دیگر وجوہات کے ساتھ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ 7 اکتوبر کو دوبارہ نہ ہو سکے اور اسرائیل کے دشمنوں کو یہ دکھانا ہے کہ اسرائیل جیت گیا ہے۔
سموتریچ نے واضح الفاظ میں کہا، "میں جنگ کو ختم کرنے والے معاہدے سے اتفاق نہیں کروں گا" اور اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ، اگر جنگ بندی اور یرغمالیوں کے معاہدے پر اتفاق کیا گیا تو، IDF بعد میں غزہ میں حماس کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ سموتریچ نے کہا، جنگ کا خاتمہ پلٹنے والا نہیں ہوگا۔
سموٹریچ نےپھر اس بات کی وضاحت کی کہ وہ "حماس کے حوالے سے جنگ کے مقاصد" کو پورا کرنے کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں۔ : "ہم اس جنگ کو اس وقت ختم کر دیں گے جب حماس کا صفایا ہو جائے گا، وہ ختم ہو جائے گی، تباہ ہو جائے گی، اس کا کوئی وجود نہیں رہے گا… غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت نہیں ہے۔
جب ان سے دوبارہ یہ کہا جاتا ہے کہ "اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یرغمالیوں کی واپسی نہیں ہو گی"، تو نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ نے ڈھٹائی کے ساتھ اس وال سے منہ موڑ کر جواب دیا: "جب حماس سمجھ جائے گی کہ وہ اکیلے ہیں اور کوئی حزب اللہ اس کی حمایت نہیں کر رہا ہے، اور کوئی ایران اس کی حمایت نہیں کر رہا ہے، اور وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ ہے جو ہمیں عمل کی مکمل آزادی دے گا..." ان الفاظ پر پہنچ کر سموتریچ کو میزبانوں کی طرف سے روکا جاتا ہے اور وہ اپنے جملے کو مکمل نہیں کرتپاتے لیکن وہ آگے بڑھتے ہیں: "اگر ہم غزہ کی پٹی میں کوششیں جاری رکھیں گے تو ہم… شمالی غزہ میں (حماس تنظیم کی) مکمل نس بندی، اور آخر کار، متبادل گورننس تشکیل دیں گے۔ "
سموتریچ کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں یہودی آباد کاری کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے اوروہ کرے گا لیکن نیتن یاہو کے وزیر خزانہ نے یہاں پہنچ کر کچھ احتیاط کی اور اپنے گزشتہ خیال کو محدود کرتے ہوئے کہا کہ "آباد کاری جنگ کے مقاصد میں سے ایک نہیں ہے۔"
کیا گیلنٹ سموتریچ جیسے رجحانات سے ہی نالاں تھے؟
اسرائیل کے گزشتہ دنوں برطرف کئے گئے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے آخری دنوں میں واضح الفاظ میں شکایت کی تھی کہ جنگ بندی میں اسرائیل کی انتہا پسند جماعتوں کو ساتھ رکھنے اور سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کی نیتن یاہو کی خواہشیں رکاوٹ ہیں۔ اسرائیل کی فوج کی سینئیر کمانڈ سے ریٹائرڈ ہو کر سیاست میں آنے والے یواو گیلنٹ نے لیکود پارٹی کے وزیر دفاع کی حیثیت سے 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے اندر گھس کر حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں ابتدا سے ہی پروفیشنل فوجی سٹریٹیجسٹ اور سٹیٹسمین کی حیثیت سے فیصلے کئے تاہم وہ آخر تک نیتن یاہو کی سیاسی موقع پرستی سے نالاں رہے۔
آخری دنوں میں ان کا نیتن یاہو سے اختلاف واضح ہو چکا تھا کہ وہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی جلد واپسی کے لئے جنگ بندی سمیت کچھ بھی ممکنہ آپشن اختیار کرنے کی طرف جانا چاہتے تھے جب کہ نیتن یاہو سموتریچ اور ان جیسے دیگر انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کو لے کر چلنے کو ترجیھ دیتے رہے یہاں تک کہ 5 نومبر کو انہوں نے اپنے اتحادیوں کے دباؤ پر گیلنٹ کو برطرف کر دیا جس کے بعد سموتریچ جیسی آوازیں زیادہ دلیری کے ساتھ یرغمالیوں کی واپسی کے سوال پر آؤٹ رائٹلی جنگ کو اپنی ترجیح بتا رہے ہیں۔