سٹی 42: ڈرامہ سیریل ’ثبات‘ کی بات کریں ’جلن‘ کی یا پھر اُن کے ماضی میں کیے جانے والے ڈراموں کی پاکستانی اداکار محمد احمد زیادہ تر ڈراموں میں ایک شفیق والد اور دوست کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر ڈرامے میں اُن کو آخری قسط سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے؟
برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال پر ہنستے ہوئے محمد احمد نے جواب دیا کہ ’اب تو یوں ہوتا ہے کہ جب بھی مجھے کوئی آفر آتی ہے تو میں یہ سوال کرتا ہوں مرنا کون سی قسط میں ہے۔اُن کا کہنا تھا دراصل جب آپ نے ہیروئین کو بہت زیادہ مظلوم بنانا ہو، تو اُسکے باپ کو ضرور مارا جاتا ہے اور پہلا گلا باپ کا ہی کٹتا ہے۔محمد احمد کہتے ہیں کہ جتنی بھی فلمیں اور ڈرامے آپ دیکھیں گے جن میں ہیرو یا ہیروئین وفات پا جاتے ہیں تو لوگ دلگرفتہ ہو جاتے ہیں۔ دُکھی اختتام زیادہ یاد رہ جاتا ہے۔
محمد احمد کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ اگر میں بیٹوں کا باپ نہ ہوتا تو شاید وہ بات سکرین پر بھی نظر نہ آتی اور میں اتنا پروگریسسو نہ ہوتا۔میں نے اپنی زندگی میں کوئی جائیدادیں نہیں بنائیں اور پیسہ نہیں جوڑا کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں کو اچھے سے اچھی تعلیم فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ بیٹیاں جب چلی جاتی ہیں اور پھر جب وہ آپ کو یاد کرتی ہیں تو آپ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں مختلف رول کرنا چاہتا ہوں، ایک دو آفرز بھی آئی ہیں۔ ’ لال کبوتر‘ میں منفی کردار ادا کیا ،عاصم عباسی کا کمال تھا کہ انھوں نے ’کیک‘ میں مجھے لیا تو شاید میں لوگوں کی نظروں میں آیا۔’جب لکھنےکا سلسلہ ختم ہوا تو ایک مایوسی کا دور آیا۔ مجھ سے اگر توقع کی جاتی کہ بلاوجہ لڑکیوں کو پٹائی لگاؤں، ریپ کرواؤں، وہ بھی ایسے کہ وہ سینسیشن بنے بجائے اسکے کہ اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے تو مجھ سے (اس طرح کی کہانیاں) نہیں لکھی گئیں۔مہرین جبار کے لیے ایک فلم لکھی جس کا نام ہے ’ میڈم جی‘ مگر یہ فلم کورونا کی نظر ہو گئی ۔ندیم بیگ کے لیے لکھے جانے والے ڈرامے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بولڈ ہے، ابھی اس کے بارے میں بحث چل رہی ہے کہ اسے کیسے کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیمرا میرا نہیں خیال ہے کہ بہت غلط کہہ رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کہتا ہے کہ ریپ ،جنسی تشدد نہ دکھائیں اور جادو ٹونے نہ دکھائیں اس میں کیا (غلط) بات ہے۔کیا ہی کہنے کی ضرورت ہے کہ ریٹنگ کون بناتا ہے۔ وہ اگر بدل سکیں تو انڈسٹری کی سوچ بدلیں، تین لوگوں کی سوچ بدل دیں میں اُن کا نام نہیں لے سکتا کیونکہ مجھے اپنا مستقبل عزیز ہے۔ تین لوگ بنا شادی کے افیئرز، طلاق اور ریپ پر پھنسے ہوئے ہیں، ان تینوں کو بٹھا کر بات کرنی چاہیے۔رائٹر تو آج کل کے منشی ہیں۔ سب کے ساتھ پیٹ ہے، اگر آپ میں جرات ہے تو ان سے بات کریں۔‘
محمد احمد نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں اب انھیں کچھ عرصہ آف سکرین بھی جانا چاہیے۔’ہر سیریل اور ہر اشتہار میں بیٹھا ہوا ہوں، وہی داڑھی وہی گنجا سر، کوئی تبدیلی تو نہیں لا سکتا۔ میں چاہوں گا کوئی لائٹ رول کروں جس سے لوگ خوش ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ انکا ایک سیریل آ رہا ہے ’اولاد‘ جس میں وہ مرینہ خان کے ساتھ آ رہے ہیں اور اس میں انھیں مارا نہیں جائے گا۔