تحریر،عامر رضا خان:مریم نواز کے اندر سے شرارت ابھی ختم نہیں ہوئی اس لیے وہ ہر وہ کام کرتی ہیں جس سے "شریکاں نوں اگ لگدی " اب دیکھیں صرف ایک دن قبل عمران خان کی جیل سے تصویر وائرل ہوئی جس میں موصوف ہلکے نیلے رنگ کے قیدیوں والے کپڑے پہنے نظر آرہے ہیں، اس تصویر کا وائرل ہونا تھا کہ کیا کیا تبصرے ہوئے اور صدقے واری والے پیغامات آئے ،وزیر اعلیٰ پنجاب جناب مریم نواز شریف سے شاید شریکوں کی یہ خوشی دیکھی نا گئی اس لیے انہوں نے کپتان داروں کی دکھتی رگ پر پاؤں رکھنے کے لیے پولیس ایلیٹ فورس کی وردی پہنی اور بیدیاں روڈ ٹریننگ سینٹر میں پاسنگ آوٹ پریڈ میں شرکت کرلی ، اور یوں اس تصویری مقابلے کا آغاز ہوا ، جس میں ایک جانب ایک قیدی تھا تو دوسری جانب پولیس والی ۔
مریم نواز خوبصورت بھی ہیں اور اقتدار کی چمک دمک بھی چہرے سے عیاں ہیں، اچھے میک اپ آرٹسٹ کا کمال بھی کہیں تو بھی کوئی مذائقہ نہیں، گوری کشمیری رنگت اور کالے رنگ کی باوقار پولیس وردی نے رعنائی کو مزید چار چاند لگا دئیے، اب مقابلہ تو بنتا ہے ایک جانب یہ دلکشی و رعنائی طاقت و اقتدار جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا ؎
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ "
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں"
تو اسے بھی شرار افلاطوں ہی جانیے کہ دوسری جانب جھڑیوں بھرا ناگوار پریشانی میں مبتلا قیدی کا چہرہ ۔ مریم نواز کی پولیس وردی والی تصویر ایک بار پھر عمران خان کے چاہنے والوں پر قہر ڈھا رہی ہے وہ تو کپتان کی ایک تصویر کا جشن منا رہے تھے تلاش کرکر کے آسمانی نیلے رنگ جیسے والے کپڑوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے تھے کہ اب مریم نواز کی وردی والی تصویر سامنے آگئی ہے اب وہ محبت بھری نطریں جو خان کی تصویر کی طرف اٹھ رہی تھیں یکا یک آگ اگلنے لگی ہیں، یہاں تک پوچھا جارہا ہے کہ مریم وردی پہنتی کیوں ہیں؟ ذرا اچھی نہیں لگ رہی ، نانی ہوگئی ہے ، وہ وہ دکھڑے روئے جارہے ہیں اور وہ جلی کٹی سنائی جارہی ہیں کہ خدا کی پناہ بیچارے بہت ہی معصوم لوگ ہیں ایک تصویر دیکھ کر ہنسنے لگ جاتے ہیں اور دوسری تصویر دیکھ کر رونا شروع ہوجاتے ہیں دیوانگی سی جیسے طاری ہے ۔
ہم تو ان کو صبر کا ہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ اب تو جو کچھ امید تھی کہ نیب ترامیم کیس کی اگلی پیشی تک بانی تحریک انصاف کی کوئی نئی تصویر یا کلپ منظر عام پر آئے گا اس کا بھی راستہ روک دیا گیا ہے ،خبر کے مطابق بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی تصویر لیک ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ،عدالتی عملے نےکلرکس اور وکلا کو بھی موبائل فونز لے جانے سے روک دیا، صحافیوں کےموبائل فونز کمرہ عدالت میں لے جانے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے ، اب آپ خود ہی فیصلہ کریں ایک جانب یہ پابندیاں تو دوسری جانب مریم نواز کا میڈیا سیل ، سرکاری کیمرے اور سہولیات ، اقتدار کی چمک دمک ہو اور دوسری جانب موبائل پر بھی پابندی تو بیچارے دل جلے کہاں چلے جائیں پھر وہ اول فول نہیں تو کیا بکیں؟
سونے پر سہاگا پنجاب حکومت سوشل میڈیا ایکٹ اسمبلی سے پاس کرارہی ہے جس کے بعد جھوٹی خبروں اور افواہوں کی فیکٹریاں جہاں سے قومِ کپتان کو آکسیجن ملا کرتی تھی بھی بند ہوجائیں گی ،وفاقی حکومت نے پیشگی ہی قومی اسمبلی کی راہداریوں میں ٹک ٹاکرز ، ٹیسٹ ٹیوبر (یو ٹیوبرز )اور میڈیا کی طرف سے ویڈیو بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
پارلیمنٹ ہائوس کے احاطہ میں سیکیورٹی سٹاف تعینات کردیا گیا ہے، پارلیمنٹ ہائوس کے احاطہ میں کسی کو بھی وڈیو بنانے کی اجازت نہیں رہی ، صاف ظاہر ہے کہ حکومت اسلام آباد والی ہو یا تحت پنجاب والی سب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چند ڈالرز کے لیے سیاست، سیاستدانوں اور اداروں کو بدنام کرنے والے وی لاگرز اور ٹیسٹ ٹیوبرز (یوٹیوبر ) کو دور رکھا جائے، ظاہر ہے اپنے جھوٹ کو پھیلانے اور ڈالر کمانے کے لیے یہ " سوشلائی مخلوق " ذرائع کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلائے گی اور پھر نئے قانون کے تحت دھر لی جائے گی ، مشورہ ہے ایسی تمام سوشلائی مخلوق کو کے اگر اس دیس میں رہ کر وہ اس دیس کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہیں گے تو اب کوئی حکومت اُنہیں اس کی اجازت نہیں دے گی ، میرا ذاتی خیال ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق اب وقت آگیا ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ کرئے ،چرس بیچنے سے قبضہ گروپس کے آلہ کار جب صحافیوں کا روپ دھار موبائل اٹھا کر دفاتر ، عدالت اور حساس جگہوں میں گھسیں گے تو کیا ملکی مفاد میں کیا ہے کیا نہیں ؟ کیا اخلاقیاتِ صحافت ہے اور کیا نہیں ؟
کسی بات کا خیال نہیں کریں گے آج اگر سپریم کورٹ ، قومی اسمبلی میں یہ پابندی لگی ہے تو جان رکھیں کہ آنے والے دنوں میں پولیس سٹیشنز ، سرکاری و نیم سرکاری دفاتر اور کھیلوں کے اداروں میں بھی یہ پابندی لگائی جائے گی کہ اگر آپ نے ملاقات کے لیے آنا ہے تو موبائل باہر جمع کراکر آئیں ،میرا مشورہ ہے کہ اس سے پہلے کہ اس سوشلائی مخلوق کے ساتھ عامل صحافی بھی شکنجے میں آئیں ان سے صحافی بریت کا اعلان کردیں ، صحافی تنظیموں کو بھی اس مخلوق سے دور رہنے کا مشورہ ہے جو کسی ادارے کے ساتھ وابستہ نہیں خود رو جڑی بوٹی کی طرح اُگ آئے ہیں وہ اگر کبھی صحافی تھے بھی تو اب نہیں کہ صحافت اداروں میں رہ کر ایک پالیسی کے تحت سچ کے لیے کی جاتی ہے ،جھوٹ کے ڈالرز کمانے کے لیے نہیں۔