اسد علی ملک : دبئی پراپرٹی لیکس پاکستان کو بدنام کرنے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی گھناؤنی سازش نکلی۔ دبئی میں جائیداد خریدنے والا کوئی بھی پاکستانی دہشت گردوں کی معاونت ، منی لانڈرنگ اور کرپشن جیسے سنگین الزامات میں ملوث نہیں نکلا۔ ابتدائی تحقیقات میں ہوشربا انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔
سنٹر فار ایڈوانس ڈیفنس سٹڈیز اینڈ آرگنائزڈ کرائم ،کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ کے اشتراک سے "دبئی اَن لاکڈ "کے نام سے تحقیقات کا آغاز کیا گیا, اس تحقیقات میں دہشت گردوں کی معاونت، منی لانڈرنگ اور کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کے دبئی میں پراپرٹی بنانے کی چھان بین کرنا تھی ، اس چھان بین کے لئے 70 ممالک سے 76 صحافیوں کا انتخاب کیا گیا ، منتخب کئے گئے صحافیوں کو ان کے اپنے ممالک کے شہریوں کی فہرستیں دی گئیں جو دبئی میں جائیدادوں کے مالک تھے ،ان صحافیوں کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ یہ چھان بین کریں کہ جو افراد دبئی میں جائیدادوں کے مالک ہیں، ان کے خلاف ان کے اپنے ممالک میں منشیات کی اسمگلنگ ، دہشت گردوں کی معاونت کرنے، کرپشن کرنے یا منی لانڈرنگ کے الزامات تو نہیں ہیں۔ یا ان الزامات میں کسی دبئی پراپرٹی اونر کو سزا تو نہیں ہوئی۔
پاکستان سے منتخب صحافیوں کو بھی انہی گائیڈ لائنز کے مطابق ہدایات دے کر دبئی پراپرٹی اونرز کی لسٹ میں موجود افراد کے متعلق چھان بین کرنے کی گئیں ، لیکن پاکستان میں اس پراجیکٹ پر کام کرنیوالے صحافیوں نے پاک فوج کے ریٹائرڈ آفیسرز ، تحریک انصاف کے مخالف سمجھے جانیوالے سیاستدانوں اور پاکستان میں موجودہ حکومت کے عہدوں پر کام کر رہی شخصیات کو بلا جواز آڑے ہاتھوں لے کر ان پر تنقید شروع کر دی۔ عمران خان پر تنقید کرنیوالے اور تحریک انصاف چھوڑ کر 8 فروری الیکشن کے بعد آزاد حیثیت سےسینیٹ کا رکن منتخب ہونے والے سینیٹر فیصل واوڈا جو کہ اپنی دبئی جائیداد کو اپنے گوشواروں میں ظاہر کر چکے ہیں، ان کا نام بھی دبئی پراپرٹی لیکس میں شامل کر دیا گیا ۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بچوں کے نام بھی دبئی پراپرٹی لیکس میں شامل کر دئیے گئے جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے بچوں اور وزیراعظم شہبازشریف کے بھتیجے حسین نواز کا نام بھی دبئی لیکس میں شامل کر کے میڈیا میں خوب اچھالا گیا۔
ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پراجیکٹ پر کام کرنیوالے پاکستانی صحافیوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے پہلے سے ڈکلیئرڈ گوشواروں کو نامناسب انداز سے تشہیر کی جس کا مقصد اداروں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانا ہے۔
ایک کاروباری شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اس پراجیکٹ میں تحریک انصاف نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ان سیاستدانوں کے نام دبئی لیکس میں تشہیر کئے گئے جو تحریک انصاف اور عمران خان کے مخالف سمجھے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ دبئی لیکس کی تشہیر سے چند گھنٹے قبل تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی افضل شیر مروت کو عمران خان ملنے سے انکار کر دیتے ہیں اور پھر چند گھنٹوں میں ان کی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رکنیت معطل کی جاتی ہے اور پھر ان کا نام دبئی لیکس میں پہلے سے ڈکلیئرڈ گوشواروں کے باوجود دبئی لیکس میں تشہیر کر دیا جاتا ہے۔ اس کاروباری شخصیت نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو دبئی لیکس کے بارے میں پہلے سے بتادیا گیا تھا۔
پاکستان کے برعکس بھارت کے ہزارواں شہری دبئی لیکس میں دبئی میں جائیدادوں کے مالک کی حیثیت سے سامنے آئے لیکن بھارتی میڈیا میں کسی بھی بھارتی شہری پر الزام تراشی نہیں کی گئی بلکہ بھارتی میڈیا بھی حیران کن انداز سے دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تشہیر میں مصروف نظر آیا ۔
ایک اور سابق فوجی آفیسر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دبئی پراپرٹی لیکس پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔ تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے بیرون ملک مقیم کچھ انفرادی شخصیات دبئی لیکس میں پس پردہ محرکات میں اہم کردار ہو سکتے ہیں جس کی تحقیقات ہونا لازم ہے۔