سٹی42: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیان جاری کر دیا کہ اگر امیدواروں کو نشانات تبدیل جاتے رہےتو عام انتخابات میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اس بیان سے پہلے ملک کی اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ شکایات آ رہی تھیں کہ ان کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کو تیر کی بجائے دوسرے انتخابی نشان الاٹ کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کے عام انتخابات پہلے ہی مہینوں کی تاخیر کا شکار ہیں اور سپریم کورٹ نے عہدیداروں کو 8 فروری کو انتخابات کرانے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
منگل کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد، سیاسی امیدوار "مختلف فورمز کے ذریعے انہیں تبدیل کر رہے ہیں"۔
بیان میں کہا گیا کہ 'واضح رہے کہ انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن نے تینوں پرنٹنگ کارپوریشنز کو بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا حکم دے دیا ہے اور چھپائی کا کام شروع کردیا گیا ہے'۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بعض صحافتی زرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کچھ حلقوں کے انتخابی نشانات تبدیل کرنے کے لئے ہائی کورٹوإں کے ممکنہ فیصلوں کے پیش نظر ان حلقوں مین انتخابات کروانے مین ممکنہ تاخیر کے امکانات پر سنجیدگی سے گور کر رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں انتخابی نشانات میں تبدیلی کے لیے ہائی کورٹس میں اپیلوں کا معاملہ پیش کیا گیا، اس اجلاس میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ بعض حلقوں کے لیےاگر بیلٹ پیپر دوبارہ چھپوانے کے عمل میں تاخیر ہو تو ان حلقوں میں الیکشن کی تاریخوں میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔
منگل کے روز جاری کی گئی اپنی پریس ریلیز میں ای سی پی نے کہا: "اگر انتخابی نشانات کی تبدیلی کاعمل جاری رہا تو ایک طرف، انتخابات میں تاخیر کا خدشہ ہے کیونکہ بیلٹ پیپرز کو دوبارہ چھاپنا پڑے گا، جس کے لیے وقت پہلے ہی محدود ہے، اور دوسری طرف، خصوصی کاغذ کے بیلٹ پیپرز ضائع ہو جائیں گے۔"
کاغذ کے زیاں پر زور دیتے ہوئے، جو کہ خاص طور سے درآمد کیا جاتا ہے اور پاکستان کو پہلے ہی ادائیگی کے توازن کے شدید بحران کا سامنا ہے، ای سی پی نے کہا کہ 2018 کے انتخابات کے لیے بیلٹ پیپر کی چھپائی کے لیے 800 ٹن کاغذ استعمال کیا گیا تھا، جب کہ اس بار، تخمینہ ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات میں 2,070 ٹن کاغذ کا استعمال کیا جائے گا۔
اسی طرح 2018 کے انتخابات میں 11,700 امیدواروں نے حصہ لیا، جب کہ اس الیکشن میں 18,059 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ 2018 میں 220 ملین بیلٹ پیپرز چھاپے گئے جبکہ اس بار 260 ملین بیلٹ پیپرز چھاپے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن اجلاس کر رہا ہے کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اور انتخابی نشان تبدیل نہ کرنے کی کمیشن کی بار بار ہدایات پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ایک تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ اگر انتخابی نشانات کی تبدیلی کا یہ سلسلہ نہ رکا تو ایسے حلقوں میں انتخابات ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا‘۔
یہ پیشرفت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی جانب سے اپنے نشانات کی الاٹمنٹ کے خلاف پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) سے رجوع کرنے کے بعد سامنے آئی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
تاہم، ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی، آصف خان، کامران بنگش، اور آفتاب عالم سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستیں خارج کر دیں، جو اپنی پارٹی کے 'بلے' کے نشان سے محروم ہونے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
انتخابی نشان بیلٹ پیپرز پر امیدواروں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ووٹر اپنی پسند کے امیدوار کے لئے مخصوص نشان پر مہر لگا سکتے ہیں۔ بیلٹ پیپر میں نام بھی ہوتے ہیں، لیکن پاکستان کی 241 ملین آبادی میں سے 40% سے زیادہ ناخواندہ ہیں، جس کی وجہ سے انتخابی نشان کی تصویروں کو امیدواروں کی شناخت کے لیے اضافی اہمیت حاصل ہے۔
2022-23 کے اقتصادی سروے کے مطابق، پاکستان کے زیادہ تر حلقے دیہی علاقوں میں ہیں جہاں خواندگی کی شرح 50% کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان کے انتخابی عمل میں ہزاروں امیدوار اور درجنوں سیاسی جماعتیں اور نشانات شامل ہیں۔اس الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کو مجموعی طور پر 150 نشانات تفویض کیے گئے ہیں اور مزید 174 آزاد امیدواروں کو دیے جائیں گے۔