لگتا ہے میں نے اپنے آج کے بلاگ کا عنوان کچھ غلط رکھ دیا ہے ہونا تو چاہیے تھا " کچھ شرم ہوتی تھی کچھ حیا ہوتی تھی " سیاست کے شب و روز میں 2008 کے بعد جو طوفان بدتمیز برپا ہوا اُس نے سیاست میں سے شر م و حیا کو ایسے نکال باہر کیا کہ جیسے یہ کوئی ممنوعہ عناصر ہوں اور انہیں اختیار کرنے سے کوئی بھی انسان گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار پاتا ہو ، یہ جملہ 2015 میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجودہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بولا تھا اور اب یہ ایک مقبول محاورے کی صورت میں زبان زد عام ہے یہ جملہ جن حالات میں بولا گیا تھا وہ کچھ ایسے تھے کہ2014ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا اور عمران خان کی قیادت میں ایک ریلی اسلام آباد تک نکالی جس نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے دیا اسلام آباد میں وہ اکیلے نہیں پہنچے تھے اُن کے ساتھ ماڈل تاون واقعہ کا بدلا لینے علامہ طاہر القادری بھی سر پر کفن باندھے اپنے ماننے والوں کے ساتھ تھے ۔
یہ دھرنا 126 دن پر محیط رہا روزانہ چاہنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی جاتی کہ آج حکومت گئی یا کل گئی تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دے دئیے کیا کیا تماشے مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں نہیں ہوئے ریحام خان سے نام لیے بغیر شادی کا اعلان کیا ، کبھی کفن باندھے گئے حلف لیے گئے ، قبریں کھودی گئیں ، پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا گالیاں نکالی گئیں ، سرکاری افسران کو صرف دھمکایا ہی نہیں پیٹا بھی گیا چینی صدر کی پاکستان آمد کو موخر کرانے اور سرمایا کاری کو روکنے کا پورا بندو بست کیا گیا اور جب دورہ ملتوہ ہوا تو اسے بڑی کامیابی قرار دیا گیا ، بار بار فرمایا جاتا کہ امپائر(دوسرے معنوں میں اسٹیبلشمنٹ ) کی اُنگلی اٹھنے والی ہے جس کے بعد حکومتی پچ پر بیٹنگ کرنے والے کو گھر جانا پڑے گا ، لیکن ہوا کیا کہ پی ٹی ائی نے 16 دسمبر کے سانحہ اے پی ایس کو بہانہ بنایا اور پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا ختم کرکے اسمبلی میں اپنے استعفے واپس لیے بغیر اجلاس میں شرکت کی جس پر خواجہ آصف نے کوئی شر ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے کہہ کر وہ کلاس لی کہ الاامان الحفیظ ۔
اتنا کچھ ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے شرم و حیا کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی یوٹرن سیاسی پالیسی کو جاری رکھا اور 2018 ء میں اقتدار حاصل کرلیا اب یہاں سے شروحیا کے دامن کو ایک بار پھر جھٹک دیا گیا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ یوٹرن لینا تو لیڈر کی بڑی کوالٹی ہوتی ہے جس پر ماننے والوں نے ایسی ایسی تویلات گھڑی کے انسانیت بھی شرما گئی اور یوں خان صاحب نے اپنے تمام انتخابی وعدوں اور معاہدات کو یوٹرن کے نام پر ترک کردیا عمران خان اپوزیشن میں کہتے تھے حکمران چور ہیں عوام بہت اچھی ہے حکمران بنے تو کہنے لگے کہ عوام ٹیکس چور ہے پورا ٹیکس نہیں دیتی ، یہ کہتے تھے کہ خودکشی کرلوں گا کبھی آئی ایم ایف میں نہیں جاؤں گا وہی ایڑیاں اور ناک رگڑتے آئی ایم ایف کا پروگرام لینے چلے گئے ، ریحام کے ساتھ شادی تو وہ اقتدار سے پہلے ہی ختم کر چکے تھے وہ عمران خان جو کہتے تھے کہ کبھی فوجی افسران کو ایکسٹینشن نہیں دوں گا انہوں نے اپنی تھوکے کو یوں چاٹا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹیشن دی اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایسے فیصلے کیے کہ جن پر یوٹرن لیکن اب تو حد ہی کردی کہ ایک بار پھر اسمبلی میں واپس جانے کا عندیہ دے دیا ۔
مانا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی لیکن عمران خان بطور چیئرمین تمام ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو ان کی پارٹی جیسے میں پریشر گروپ کہتا ہوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں پہلے انہوں نے اپنی ہی جماعت کی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں توڑنے کا اعلان کیا اور پرویز الہیٰ صاحب کے تمام حیلوں بہانوں کے باوجود انہیں اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کردیا ، لیکن جو اعلان کیا تھا کہ کے پی کے کی اسمبلی بھی ساتھ ہی تحلیل کردی جائے گی اُس سے مکمل نہیں تو جزوی یوٹرن لے لیا اور آج کے روز تک جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں خیبر پختونخواہ کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی بات نہیں کی جا رہی اور اس کی جگہ دوبارہ قومی اسمبلی میں بیٹھنے کی بات کی جارہی ہے اس سے نقصان کس کا ہوا اُن اراکین قومی اسمبلی کا جن کے استعفے منظور ہوئے اور اُن کی نشستوں پر عمران خان صاحب نے خود الیکشن لڑا اور ایک اپنی اور ایک ملتان کی یعنی دو سیٹیں گنوا بھی لیں اور اب خان صاحب بھی صرف ایک سیٹ ہی رکھ سکتے ہیں جو ظاہر ہے اُن کی میانوالی والی سیٹ ہوگی تو پھر اب یہ قومی اسمبلی میں کیا لینے جارہے ہیں جہاں ان کی اپنی پارٹی سےٹوٹے ہوئے ہی اراکین اپوزیشن کے نام سے بیٹھے ہیں ، خان صاحب عدم اعتماد کے بعد ذرا سی بھی سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے اور بار بار تھوک چاٹ پروگرام کا اجرا نہ کرتے تو آج بھی اسمبلی میں ہوتے اور اُن کی سیاسی طفلانہ خواہش کے مطابق شائد حکومت گرانے کی پوزیشن میں بھی ہوتے لیکن اب ایسا شائد ممکن نہیں میں نے پلوں کے نیچے سے کافی زیادہ پانی گزر چکا اسٹیبلشمنٹ میں بھی تبدیلیاں ہوچکیں ہیں اس لیے اُنگلی کھڑی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے ان حالات میں کراچی کے انتکابات نے سوشل میڈیائی پھونک بھرے غبارے سے ہوا خارج ہوگئی ہے اور کچھ اسی طرح کا نتیجہ پنجاب میں بھی آسکتا ہے اگر یہاں مسلم لیگ ن نے بھی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی طرح سیاسی دلیری دکھائی تو پی ٹی ائی پنجاب میں دوسرے تیسرے نمبر پر ہوجائے گی یہ سیاسی دلیری کیا ہے اور کیسے دکھائی جاسکتی ہے اس پر آئندہ کسی بلاگ میں لکھوں گا ۔