(مانیٹرنگ ڈیسک) تبدیلی سرکار کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں مختلف نوعیت کے اقدامات کے بعد اطلاعات ہیں کہ کرکٹ ایجنٹس کے کردار کو بھی بورڈ نے بغور جائزے کے حوالے سے سوچنا شروع کردیا۔
کرکٹ ایجنٹس کے بڑھتے کردار اور ان سے وابستہ کرکٹرز کے معاملات اب بورڈ کے لیے چیلنج بنتے جا رہے ہیں, اس حوالے سے مختلف نوعیت کی شکایات کے منظر عام پر آنے کے بعد بورڈ کی سطح پر اس معاملے میں مستقبل میں سنجیدہ نوعیت کے اقدامات متوقع ہیں، ابتدائی طور پر بورڈ اس معاملے میں لائحہ عمل طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بورڈ غور کر رہا ہے کہ ایجنٹس کے ساتھ وابستہ کرکٹرز اور ایجنٹس کے کردار اور ان کے وسائل بورڈ کی بڑی ترجیح ہوں گے، بورڈ طے کرنا چاہتا ہے کہ ایک ایجنٹ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کتنے کرکٹرز ہونے چاہئیں۔
22 دسمبر 2022 کو وزیراعظم شہباز شریف نے نجم سیٹھی کو رمیز راجا کی جگہ 120 دن کے لیے 14 رکنی مینجمنٹ کمیٹی کے ساتھ پی سی بی کا چارج دیا اور ان کے لیے پہلا اسائمنٹ 2014 آئین کی بحالی ہے۔
نجم سیٹھی کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے آتے ہی چیف سلیکٹر محمد وسیم کو ان کے عہدے سے فارغ کیا اور شاہد آفریدی کو نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے ٹیم کی سلیکشن کا ٹاسک دیا۔
شاہد آفریدی نے بورڈ کی اجازت سے ناصرف ٹیم کا اعلان کیا بلکہ ساتھ ہی ان فٹ نائب کپتان شاداب خان کی جگہ شان مسعود کو یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے منتخب کیا۔
شان مسعود کو ابتدائی دو ون ڈے میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ بورڈ کی جانب سے بابر اعظم کی قیادت پر سامنے آنے والے تحفظات پر جس انداز میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اس سے اندرونِ خانہ اشارے مل رہے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی کرکٹ ایجنٹس کے مفادات کا ٹکراؤ سب سے بڑی وجہ بنی ہے۔
اس معاملے کی تہہ میں جانے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کرکٹ ایجنٹس نے پاکستان کرکٹ میں ہاتھوں سے پھسلتی اپنی اجارہ داری کے تناظر میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی ہے اور اس حقیقت کے آشکار ہونے پر بورڈ کے لیے سیدھا پیغام ہے کہ بورڈ کے لیے پلیئر پاور سے زیادہ کرکٹ ایجنٹ مستقبل میں بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں بورڈ نے کرکٹ ایجنٹس کے کردار کو محدود رکھنے اور انہیں کرکٹرز کے مفاد میں کام کرنے تک ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایجنٹس کو پاکستان کرکٹ کی پالیسی سازی سے دور رکھنے اور اپنے فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے علیحدہ رکھنے کے لیے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔
اس تناظر میں بورڈ کرکٹ ایجنٹس کے کوائف کے ساتھ ان سے مالی معاملات پر بھی گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور قانونی طور پر ان کی نقل و عمل اپنے دائرہ کار میں رکھ کر اس بات کو واضح بنانا چاہتا ہے کہ ایک کرکٹ ایجنٹ زیادہ کھلاڑیوں سے رابطے میں نہ رہے۔