قصور میں معصوم زینب کا قاتل آخر کار کیفر کردار کو پہنچ گیا، یہ پہلا کیس ہے جس پر ردعمل نے اقتدار کے ایوانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، یہ وجہ تھی کے بہت جلد ملزم بھی پکڑا گیا اور اس کا ٹرائل بھی مکمل ہوگیا،انسداد دہشت گردی لاہور کی خصوصی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر پاکستان کی ننھی پری زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرم عمران علی کو چار بارسزائے موت دینے کا حکم دیدیا ہے۔ ملزم کا کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل مکمل کیا گیا تھا، اس لئے فیصلہ بھی کوٹ لکھپت جیل میں ہی سنایا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کے جج سجاد احمد نے عمران علی کے خلاف یہ فیصلہ سنایا ہے۔ زینب کے والد محمد امین اور دیگر رشتہ دار بھی فیصلہ سننے کیلئے کوٹ لکھپت جیل میں موجود تھے۔سپریم کورٹ نے ملزم عمران علی کے خصوصی ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل مکمل کرتے ہوئے ملزم عمران علی کو سزائے موت سنائی ہے۔ملزم علی عمران کو 23جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم عمران کوزینب کو اغوا کرنے، زیادتی کرنے اور قتل کرنے پر سزائے موت کا حکم سنا دیااور دفعہ 7اے ٹی اے کے تحت سزائے موت اور 10 روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے،جبکہ لاش کو گندگی میں چھپانے پر 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کی سزاسنا ئی ہے۔
یاد رہے جنوری 2018 کا دن ننھی زینب گھر سے ٹیوشن پر گئی، واپس گھر نہیں پہنچی، تین روز بعد زینپ کی لاش گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی، معصوم زینبکے قتل نے پوری قوم کو جھنجھور کر رکھ دیا، پولیس نے بھی ملزم کو ڈھونڈ نکالنے کی ٹھان لی، درجنوں افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی، لیکن اصل مجرم قابو نہ آیا، سیکڑوں لوگوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے۔
زینب کے قتل کی تحقیقات نے قصور میں معصوم بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل کی داستانیں بھی بے نقاب ہوگئیں، معاملے کی سنگینی کے پیش نظر عدالت عظمی کو مداخلت کرنا پڑی، 10 جنوری کو سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا،عدالت نے ملز کی گرفتار کیلئے 15 جنوری کی ڈیڈلائن دی، پھر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف بھی کود پڑے اور مجرم کی فوری گرفتاری کیلئے پولیس کو احکامات جاری کئے۔بالآخر 23 جنوری تمام تر کوششوں کے بعد ملزم عمران کو گرفتار ہوگیا، جو کوئی اور نہیں امین انصاری کا محلے دار ہی نکلا، عمران نے تفتیش کے دوران زینب سمیت 8 اور بچیوں سے زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کرلیا، رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی۔سپریم کورٹ نے کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ریفر کر دیا، جہاں کچھ دن کی سماعت کے بعد مجرم کو سزا سزائے موت سنا دی گئی۔
واضح رہے کہ عمران قصور شہر میں کورٹ روڈ کا رہائشی اور سات سالہ زینب انصاری کا محلے دار ہے، زینب کا عمران سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم وہ اس کو جانتے ضرور تھے،ملزم نعت خوانی کے محفلوں میں نعتیں پڑھتا تھا لیکن اس کے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔ نعت کی محفلوں سے متعلق ایک کارڈ پر اس کا نام عمران علی نقشبندی لکھا ہے جس پر ایک پتہ بھی درج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے بارے میں ان کے محلے میں یہ مشہور تھا کہ وہ چھوٹی موٹی چوریوں میں ملوث تھا۔