بشار الاسد کی معزولی کی قیادت کرنے والے جہادی گروپ ہئیت تحریر الشام کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ شام کے باغی دھڑوں کو "منتشر کر دیا جائے گا"، یہ واضح نہیں کہ انہوں نے غیر مسلھ ہونے کے سوال پر اپنے ساتھ اتحاد میں شامل 37 مسلح گروہوں کے ساتھ مشاورت کی ہے یا نہیں۔
شام کے سابق صدر ن بشار الاسد نے تو اپنے خلاف لڑنے والے مسلح باغیوں کو دہشتگرد کہا ہی تھا لیکن ہئیت تحریر الشام تنظیم کو امریکہ اور یورپی ممالک نے بھی دہشتگرد تنظیم مان رکھا تھا۔ اب یورپی اور امریکی اتحادی ماضی میں دہشتگرد قرار دیئے گروہ کی خاموش حمایت کر رہے ہیں اور غالباً خاموشی سے ہی ایسے راستے تلاش کر رہے ہیں جن سے انہیں شام کی ماضی میں دہشت گرد قرار دی گئی جہادی تنظیم کے ساتھ کام کرنے کی گنجائش مل سکے۔
اسد نو دسمبر کو شام سے ماسکو چلے گئے تھے، اس کے بعد جہادی گروپ ہئیت تحریر الشام (HTS) کی قیادت میں باغیوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لی۔
اس قبضہ سے برسوں کی خانہ جنگی کا خاتمہ ہونے کا محض ایک امکان ہی پیدا ہوا ہے کیونکہ ابھی یہ واضح نہیں کہ بشار کی مخالفت میں اکٹھے ہوئے ای کسو اسی ڈگری مختلف خیالات رکھنے والے گروپ بشار کے شام سے چلے جانے کے بعد کتنے دن اور کتنے ہفتے ایک دوسرے سے جڑے رہ سکیں گے۔
HTS رہنما ابو محمد الجولانی، اب اپنا اصل نام احمد الشارع استعمال کرتے ہوئے، اندرون ملک اور بیرون ملک حکومتوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کے عبوری رہنما تمام شامیوں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کی بھی حفاظت کریں گے۔
پیر کو دروز کرسچین کمیونٹی کے ایک وفد کے ارکان سے ملاقات کرتے ہوئے الجولانی نے کہا, "تمام باغی دھڑوں کو "منتشر کر دیا جائے گا اور جنگجوؤں کو وزارت دفاع کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے تربیت دی جائے گی۔" گروپ کے ٹیلی گرام چینل پر پوسٹس کے مطابق جولانی نے یہ بھی کہا، "سب قانون کے تابع ہوں گے،" لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ قانون کیا ہوں گے اور انہیں کون بنائے گا. شام میں 55 سال سے جاری بعث پارٹی کی حکومت کے بنائے ہوئےقوانین نہ ان کے مخالف مسلح باغیوں کو پسند تھے نہ ان کے مخالف یورپی ملکوں کے حکمرانوں کو پسند تھے، اب ان قوانین کو ترک کر کے نئے قانون کون بنائے گا اور انہین سب گروپوں سے کون تسلیم کروائے گا، یہ سوال اب تک جواب طلب ہیں۔
دروز اقلیت کے کسی وفد سے ملاقات میں الجولانی نے کثیر النسلی ملک شام میں "اتحاد کی ضرورت" پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ شام کو متحد رہنا چاہیے۔ "سماجی انصاف کی ضمانت کے لیے ریاست اور تمام مذاہب کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہونا چاہیے"۔
شام کے معزول صدر بشار الاسد کے بارے میں مغربی میڈیا کا پھیلایا ہوا تاثر کچھ بھی ہو، سر دست ان کی بعث پارٹی کے لوگ شام میں ہی موجود ہیں اور حکومت مین شامل سوا تین درجن گروہوں کی طرح انہیں بھی اپنے مستقبل کے اہم فیصلے کرنا ہیں، بشار الاسد نے شام سے روس جانے کے بعد پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بیان دیا تو وہ یہ تھا کہ میں شام سے بھاگا نہین بلکہ روسیوں نے مجھے خود درخواست کر کے شام سے ماسکو بھیجا کیونکہ روسی ائیر بیس بھی ڈرون حملوں کی زد میں تھا۔۔
معزول صدر کے ٹیلی گرام چینل پر اسد کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "شام سے میری روانگی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور نہ ہی ایسا کوئی فیصلہ لڑائیوں کے آخری اوقات میں ہوا، جیسا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "ماسکو نے درخواست کی کہ بیس کی کمانڈ مجھےروس پہنچانےکا بندوبست کرے۔"
جس وقت ہئیت تحریر کے لیڈر مسلھ گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے ارادے کا اعلان کر رہے ہین اسی وقت اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے شام میں "بڑے پیمانے پر حمایت" کی اپیل کی۔
شام کے متعلق عام خیال ےہ کہ وہاں ستر فیصد آبادی کو زندہ رہنے کے لئے امداد کی ضرورت ہے کیونکہ تیرہ سال طویل خانہ جنگی اور مغربی ملکوں کے شدید نوعیت کے مقاطعہ نےشام کی معیشت کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارہ کے لیڈر نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کو شامی عوام کے ارد گرد "ریلی" کرنی چاہیے۔شام کی معیشت امریکی اور یورپی پابندیوں کی وجہ سے محدود ہے، اور مغربی طاقتیں اب بھی یہ طے کر رہی ہیں کہالقاعدہ کے سابق کارکنوں کی نئی تنظیم ہئیت تحریر کے ساتھ کس طرح پبلک کے سامنے سلام دعا کرنا ہے اور کیسے اس تنظیم پر لگا دہشتگرد کا لیبل ہتانا ہے۔
اس گروپ کی جڑیں القاعدہ کی شامی شاخ سے ہیں اور کئی حکومتوں نے اسے دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے۔
جولانی کی برٹش ڈپلومیٹس سے پابندیاں ہٹانے کی درخواست
گروپ کے ٹیلی گرام چینل نے کہا کہ پیر کو برطانوی سفارت کاروں کے ایک وفد سے ملاقات کرتے ہوئے، جولانی نے "شام پر عائد تمام پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ شامی مہاجرین اپنے ملک واپس جا سکیں"۔
غیر ملکی حکومتوں نے شام کے نئے عبوری حکمرانوں کے ساتھ محتاط روابط کا آغاز کر دیا ہے۔
ترکی اور قطر نے دمشق میں سفارتخانے دوبارہ کھول دیے ہیں جبکہ امریکی اور برطانوی حکام نے شامی حکام سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
اور یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار ملاقاتوں کے لیے پیر کو دمشق پہنچے۔
یورپی یونین کی فراخ دِلی؛ "نئی قیادت" کے اقدامات کا انتظار
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے اس سفر کے بارے میں برسلز میں کہا، "ہم کوئی خلا نہیں چھوڑ سکتے،" روس اور ایران کی "شام کے مستقبل میں جگہ نہیں ہونی چاہیے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ پابندیاں ہٹانے اور ایچ ٹی ایس کو یورپی یونین کی بلیک لسٹ سے نکالنے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ "جب ہم مثبت اقدامات دیکھیں گے، الفاظ کی نہیں، بلکہ نئی قیادت کی طرف سے حقیقی اقدامات اور اقدامات"۔