ویب ڈیسک : جڑانوالہ میں مساجد سے اعلانات کر کے عوام کو اقلیتی عبادت گاہوں پر حملے کے لیے اشتعال دلانے والے ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا۔
نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے بتایا کہ جڑانوالہ واقعہ کے دونوں مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ وزیر اعلی نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ دونوں ملزمان سی ٹی ڈی حکام کی تحویل میں ہیں۔
وزیر اعلی پبجاب نے ان گرفتاریوں پر چیف سیکٹری اور آئی جی پنجاب کی فوری کاروائی پر تعریف کی اور کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے احکامات کی روشنی میں ملزمان کی فوری گرفتاری کو یقینی بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے پنجاب حکومت پر اعتماد کے شکر گزار ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ میں جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کے خلاف 2 مقدمات درج کیے گئے ہیں جس میں 37 افراد کو نامزد اور 600 سے زائد نامعلوم افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ ملزمان نے توڑ پھوڑ کی، گھروں اور گرجا گھر کو آگ لگائی، مقدمات میں دہشتگردی اور توہین مذہب سمیت 13 سے زائد دفعات شامل ہیں۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ کی مسجد میں اعلان کر کے لوگوں کو اشتعال دلانے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزم یاسین کو منظر عام پر آنے والی ویڈیو کی مدد سے گرفتار کیا گیا، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم مسجد کے اسپیکر پر لوگوں کو جمع ہونےکا کہہ رہا ہے۔ ویڈیوز کی مدد سے فسادات میں ملوث مزید ملزمان کی شناخت کر کے گرفتاریوں کی کوشش جاری ہے۔
ڈپٹی کمشنر علی عنان قمر کا کہنا ہے کہ جڑانوالہ میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے، شہر میں امن و امان کی مکمل بحالی اور صورتحال معمول پر آنے تک دفعہ 144 نافذ رہےگی۔
ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے جڑانوالہ واقعےکا اعلیٰ سطح انکوائری کا حکم دیا ہے، سوچی سمجھی سازش کےتحت امن خراب کرنےکی کوشش کی گئی، قرآن پاک کی بےحرمتی کی تحقیقات جاری ہے اور ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے، قرآن کی بے حرمتی کو بنیاد بناکر اقلیتوں کی آبادیوں پر حملہ آورہونےکی کوشش کی گئی جسے پولیس نے ناکام بنایا، امن کمیٹی کومتحرک کردیا کیا گیا ہے اور پولیس نے 100 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔کمشنر، آرپی او، ڈپٹی کمشنر اور سی پی او فیصل آباد نفری کے ساتھ موقع پر موجود ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے جڑانوالہ واقعے کے منصوبہ سازوں اور مساجد سے اعلانات کرنے والوں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں اور مذہبی شعائرکے احترام کا درس دیتا ہے، جو کچھ جڑانوالہ میں ہوا اس کی مذہب، رائج ملکی قانون اور ہماری معاشرتی اقدار میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرے مذاہب کے افراد اور عبادت گاہوں پر حملے کی قانون اور اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، ان واقعات میں ملوث تمام شرپسندوں کے خلاف بلاتفریق قانونی کارروائی کی جائے۔ جن گھروں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا حکومت فوری ان کی بحالی کے اقدامات کرے، لوگوں کی نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ازالہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا ایسے واقعات کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ ملوث مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے، اس سلسلے میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو دن رات سماعت کریں،خصوصی عدالتیں ان جرائم پر اکسانے والے افراد، منصوبہ سازوں اور مساجد سے اعلانات کرنے والوں کو سزائیں دیں۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نےکہا کہ جڑانوالہ سانحے کی جامع تحقیقات کر کے ذمے داروں کو قرارِ واقعی سزا دی جائے، میڈیا بھی یکطرفہ مؤقف پیش نہ کرے، قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ قرآنِ کریم اور ناموسِ رسالت ﷺ کی اہانت کے ذمے داروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، حکومت متاثرین کے نقصانات کی تلافی کرے، اس کارروائی کے ذمے داران ملک و ملّت کے دشمن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اگر بروقت کارروائی کرتی تو لوگوں کے مشتعل ہونے کی نوبت نہ آتی، تمام مسلم اور غیر مسلم شہریوں کی جان، مال، آبرو اور املاک کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔