ملک اشرف: پسند کی شادی کا تعلق توڑنے کی کوشش کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، ہائیکورٹ نے پسند کی شادی پر ہراساں کئے جانے کے کیسز کے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ تحفظ حاصل کرنے کی درخواستوں پر عدالتی احکامات کا غلط استعمال روکنے کیلئے عدالت کو محتاط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس علی ضیاء باجوہ نے شہری صائمہ بی بی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر بھی قرار دیا گیا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پسند کی شادی کے بعد قریبی رشتہ داروں کا اس تعلق کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں عام ہے، نکاح کے بندھن اور زندگی کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ہرعاقل اور بالغ مسلمان لڑکی کے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا قانونی نکتہ عدالتوں میں طے ہو چکا ہے۔ پسند کی شادی ایک مذہبی معاہدے نکاح کے تحت پایا تکمیل کو پہنچتی اور جوڑا اپنے خاندان کا آغاز کرتا ہے۔ اسلامی قوانین کے تحت ہر مرد اور خاتون اپنی مرضی سے نکاح کرنے میں آزاد ہے، والدین کی مرضی کےبغیر شادی کرنیوالی خواتین کی جانب سے تحفظ کی درخواستوں کا رجحان بڑھ چکا ہے۔
فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ تحفظ حاصل کرنے کی درخواستوں پر عدالتی احکامات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے عدالت کو محتاط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔درخواستگزارنے اپنے خاوند کیساتھ پیش ہوکرنکاح نامہ پیش کیا تھا اور پسند کی شادی کا بیان دیاتھا۔ عدالت نے پولیس کو درخواستگزار خاتون اور اس کے خاوند کو غیرقانونی ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔