ویب ڈیسک : امریکی صدر جو بائیڈن کاخطاب کےدوران کہناتھا کہ افغانستان میں امریکی مہم کامقصدقوم کی تعمیر نہیں بلکہ دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔ امریکی ایسی قوم کا دفاع نہیں کرسکتے جس کے رہنما بھاگ گئے ۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کاخطاب کےدوران کہناتھا کہ افغانستان میں امریکی مہم کامقصدقوم کی تعمیر نہیں بلکہ دہشت گردی کا خاتمہ تھا۔ امریکی اس جنگ میں لڑتے اور مرتے نہیں رہ سکتے جس میں افغان خود اپنے لیے لڑنے کے لیے تیار نہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرات کریں مگر انہوں نے اس سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ افغان فوج طالبان سے لڑے گی۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے پر قائم ہیں، 20 برس کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا وقت آ گیا تھا۔ تاہم طالبان نے جتنی تیزی سے پیش قدمی کی اس کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔ افغان حکومت طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ کرنے میں ناکام رہی۔ صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکا چار صدور کے ادوار میں افغان جنگ میں شریک رہا، وہ پانچویں صدر کو یہ جنگ نہیں پہنچنے دوں گا۔امریکا افغان جنگ میں مزید نسلیں نہیں جھونک سکتا۔ افغانستان میں حالیہ بحران ان امریکی فوجیوں کے لیے تکلیف دہ ہے، جنہوں نے وہاں 20 سال جنگ لڑی۔
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی جنگ ختم کرنےکےفیصلے پر پچھتاوا نہیں۔ لامحدود فوجی تعیناتی سے افغان مسئلہ حل نہیں ہو سکتا،سفارتکاری کے ذریعے کوششیں جاری رکھیں گے۔ امریکا نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ اگر انھوں نے امریکی عملے کو نشانہ بنایا یا امریکی آپریشن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تو اس کا فوری اور بھرپور جواب دیا جائے گا, امریکا افغان عوام، عورتوں اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق پر بات کرتا رہے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ افغان رہنما حوصلے چھوڑ گئے اور ملک سے بھاگ نکلے، ہم نے افغان فوج کو سب کچھ دیا مگر انہیں لڑنے کا عزم اور حوصلہ نہ دے سکے۔ امریکی فوج ایسی قوم کا دفاع نہیں کرسکتی جس کے رہنما مثلاً افغان صدر اشرف غنی ’ہار مان کر فرار‘ ہوگئے۔ ہم نے انہیں اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا ہر موقع دیا، ہم انہیں ان کے مستقبل کے لیے لڑنے کا حوصلہ نہیں دے سکتے۔ صدر بائیڈن نےطالبان رہنماؤں کو خبردار کیا کہ اگر وہ امریکی انخلا میں مداخلت کرتے ہیں تو انہیں ’تباہ کن قوت‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ جو بائیڈن امریکی سفارتکاروں اور شہریوں کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہری جنہیں انتقام کا سامنا ہوسکتا ہے، کے محفوظ انخلا کے لیے امریکی فوجیوں کی کمک دوبارہ کابل بھیجنےپر مجبور ہوگئے تھے۔