انسان کے مزاج میں اچانک تبدیلی کیوں آتی ہے؟

17 Aug, 2021 | 08:25 AM

Ibrar Ahmad

 ویب ڈیسک :  آپ نےاکثردیکھا ہوگا کہ چند افراد کےمزاج میں اچانک تبدیلی آتی ہے، وہ نہایت خوش دکھائی دیتے ہیں اور پھر اچانک نہایت اداسی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

 تفصیلات کے مطابق   آپ نےاکثردیکھا ہوگا کہ چند افراد کےمزاج میں اچانک تبدیلی آتی ہے ، یہ ممکن ہے کہ اسے زیادہ سنجیدہ نہ لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص انتہائی خوشی کی حالت سے مستقل اور پے در پے شدیدڈپریشن  کی طرف چلاجاتا ہےاس  کیلئےادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔  انسان کے مزاج میں تیزی سے تبدیلی کی چند وجوہات ہوتی ہیں ،مزاج میں تبدیلی کی کچھ وجوہات ذہنی صحت، ہارمونز یا دیگر صحت کے حالات سے متعلق ہوسکتی ہیں۔

ہارمونز مزاج میں تبدیلی کا سبب بھی بن سکتے ہیں، اور ان کا تعلق ان ہارمونز سے ہوتا ہے جو دماغ کی کیمسٹری کو متاثر کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں اور خواتین میں جو حاملہ ہیں یا  حیض کے مرحلے تک پہنچ چکی ہیں،وہ جسمانی نشونما کے اس مرحلے سے جڑی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے موڈ میں تبدیلی محسوس کرتی ہیں۔ 

ذہنی صحت کے مختلف حالات مزاج کی تبدیلی  کی وجہ  بن سکتے ہیں،جن کواکثر موڈ ڈس آرڈر کہاجاتاہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر میں   کسی شخص کے جذبات انتہائی خوشی سے لے کر انتہائی اداسی تک ہو سکتے ہیں، لیکن بائی پولر ڈس آرڈر سے وابستہ مزاج میں ہونے والی تبدیلیاں عام طور پر سال میں صرف چند بار ہوتی ہیں، سائیکلک موڈ ڈس آرڈر ایک ہلکا سا موڈ ڈس آرڈر جو بائی پولر ٹو ڈس آرڈر سے ملتا جلتا ہے ، جس میں کسی شخص کے جذبات اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتے ہیں لیکن دو قطبی عارضے سے وابستہ افراد سے کم شدید ہوتے ہیں۔

میجر ڈپریشن ڈس آرڈر میں  ڈپریشن میں مریض طویل عرصے تک بہت اداس رہتا ہے، ایم ڈی ڈی کو بعض اوقات کلینیکل ڈپریشن کہا جاتا ہے۔اسے مسلسل ڈپریشن ڈس آرڈر  کہا جاتا ہے ، یہ ڈپریشن کی ایک دائمی شکل ہے۔ ڈی ایم ڈی ڈی کی تشخیص عام طور پر صرف بچوں میں ہوتی ہے، جس میں بچے میں چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے اور موڈ سوئنگز ہوتے ہیں۔

بائی پولر ڈس آرڈر 
 بائی پولر ڈس آرڈر  کو پہلے مینک ڈپریشن  (manic-depression)کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس بیماری میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوش ہو جاتا ہے اور اس میں بے انتہا تیزی آ جاتی ہے، اور کبھی اس میں بے انتہا اداسی ہو جاتی ہے۔ اس بیماری  میں مختلف اوقات میں مختلف کیفیات پائی جاتی ہیں۔ بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً ایک فیصد لوگوں  کو زندگی کے کسی حصے میں ہو سکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن چالیس سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذونادر ہی شروع ہوتی ہے۔ مرد اور عورت دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

 تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ خاندانی مرض ہے۔ اس کا وراثت سے زیادہ اور ماحول سے کم تعلق ہے۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دماغ میں جو نظام  ہمارے موڈ کو صحیح رکھتا  ہے، بائی پولر ڈس آرڈر میں اس نظام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اس بیماری کی علامات دواؤں سے صحیح ہو جاتی ہیں۔  یہ بیماری کبھی کبھی مشکل حالات ، ذہنی  دباؤ یا جسمانی بیماری کے بعد بھی شروع ہو جاتی ہے۔

ہر انسان کبھی نہ کبھی اداس محسوس کرتا ہے، لیکن جب یہ اداسی بڑھ کر ڈپریشن کی بیماری کی حدود میں داخل ہو جائے تو انسان کے لیے روز مر ہ کے کام کاج کرنا بھی مشکل ہونے لگتا ہے۔ جن لوگوں کو ڈپریشن ہو جائے ان میں عموماً  اس طرح کی علامات نظر آنے لگتی ہیں۔

ہر وقت اداس یا نا خوش رہنا۔ جن کاموں میں پہلے مزا آتا تھا ، دل لگتا تھا، اب ان میں دلچسپی نہ ہونا۔ کسی بات سے خوشی نہ ہونا۔ ہر وقت تھکا تھکا محسوس کرنا، کمزوری محسوس کرنا۔ چیزوں اور باتوں پہ توجہ نہ دے پانا۔ خود اعتمادی کھو دینا،اپنے آپ کو بے کار اور ناکارہ سمجھنا۔ ماضی کی ہر بری بات کا خود کو زمہ دار  ٹھہرانا۔خودکشی کے خیالات آنے لگنا یا خود کشی کی کوشش کرنا۔ نیند آنے میں مشکل ہونا یا جلدی آنکھ کھل جانا۔ بھوک اور وزن کم ہونا (کچھ لوگوں میں بھوک اور وزن میں زیادتی ہو جاتی ہے)۔

کبھی کبھی ہم سب بہت زیادہ خوش محسوس کرتے ہیں اور طاقت، توانائی اور نئے نئے خیالات اور منصوبوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ عام طور سے یہ کوئی بیماری نہیں ہوتی لیکن اگر یہ کیفیت ایک حد سے بڑھ جائے اور مستقل رہنے لگے تو یہ مینیا کی بیماری ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کو مینیا ہو جائے تو عام طور سے اس میں اس طرح کی علامات نظر آتی ہیں.

بغیر کسی وجہ کے حد سے زیادہ بے انتہا خوش اور پرجوش رہنا۔بعض دفعہ زیادہ چڑچڑا ہو جانا ۔ اپنے آپ کو  کوئی بہت بڑی ہستی یا شخصیت سمجھنے لگنا۔

اپنے آپ کو بے انتہا طاقت اور توانائی سے بھرا ہوا محسوس کرنا۔ بہت زیادہ تیزی آ جانا، بہت تیز تیز حرکت کرنا۔ بہت تیزی سے، اونچی آواز میں، اور بہت زیادہ بولنا۔ اگر آپ کے موڈ میں بہت زیادہ تیزی آ گئی   ہے تو جو آپ بولتے ہیں وہ دوسروں کو  سمجھ میں نہیں  آئے گا۔ نیند بہت کم ہو جانا اور نہ سونے یا بہت کم سونے کے باوجود مزید سونے کی ضرورت یا تھکن محسوس نہ ہونا۔ بہت سارے کام شروع کرنا لیکن ان کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ جانا۔ بہت بڑے بڑے ایسے منصوبے بنانا جن کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔ پیسے معمول کے مقابلے میں بہت زیادہ خرچ کرنے لگنا۔

اگر مینیا یا ڈپریشن کا دورہ بہت شدید ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ مریض کو ایسے خیالات آنے لگیں یا تجربات ہونے لگیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جو مریض مینیا میں ہو اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی بہت بڑی ہستی ہے مثلاً پیغمبر ہے اور اسے کسی عظیم مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے، یا اس کے اندر ایسی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں جو کسی عام انسان میں نہیں ہوتیں۔ جو مریض ڈپریشن کا  شکار ہو  اسے ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ برا اور خطا کار کوئی بھی نہیں ہے۔ دونوں کیفیتوں میں بعض دفعہ مریضوں کو اکیلے میں آوازیں آتی ہیں جب کہ ان کے آس پاس کوئی بھی نہیں ہوتا یا ایسے چیزیں نظر آتی ہیں جو کسی اور کو نہیں دکھائی دیتیں۔

بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔ خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

1)حد سے زیادہ ڈپریشن 2) نیند میں بے قاعدگی 3) سماجی رویوں میں تبدیلی 4)کام میں غیر دلچسپی 5) خودکش خیالات 6) حد سے زیادہ غمگین محسوس کرنا 7)  بے حد مایوسی چھا جانا 8) حد سے زیادہ خوش اور پر جوش ہونا 9)  کسی بھی کام میں دل نہ لگنا 10)  تھکن اور کمزوری محسوس ہونا 11) غائب دماغی کی کیفیت 12)  احساس کمتری کا شکار ہوجانا 13) ماضی کی ہر بری بات کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانا 14) بھوک اور وزن میں بہت زیادہ کمی یا زیادتی ہونا .

طویل عرصے تک بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار رہنے والے افراد میں کچھ عجیب و غریب عادات اپنی جگہ بنا لیتی ہیں، ان عادات سے واقفیت ضروری ہے تاکہ انجانے میں آپ کسی مرض کی شدت کو بڑھا نہ دیں۔

مزیدخبریں