سٹی42: وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ملک کی سمت، حکومت کے فیصلے اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیاں اور ترجیحات چیف جسٹس کو طے نہیں کرنی، عوام نے سمت کے تعین کا اختیار اور ذمہ داری پارلیمنٹ کے ارکان کو دی ہے، یہ انہی کو کرنا ہے، خدارا تعصب سے بالاتر ہو کر سوچیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اعظم نذیر تارڑ نے پوائنٹ آف پرسنل ایکسپلینیشن پر بولتے ہوئے کہا، اسد قیصر میرے لئے محترم ہیں، وہ سپیکر کی کرسی پر بھی رہے، مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی، ڈرافٹ تو اس وقت آئے گا جب بل پیش کیا جائے گا۔ حکومت کوئی بل پیش کرنا چاہئے تو بل پر پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، پھر اسے ڈرافٹ کی شکل میں کابینہ مین لایا جاتا ہے، اس کے بعد کیبنٹ کمیٹی فار لیجسلیشن میں لا کر اسے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس مین کہیں کوئی کمی تو نہیں۔ اتحادی حکومت ہو تو سی سی ایف سی میں تمام اتحادی پارٹیوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ بل کو کلاز بائی کلاز دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد کیبنٹ اس کی منظوری دیتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ یہ ( 26 ویں ترمیم) مسودہ ابھی کیبنیٹ میں ہی نہیں لایا گیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ مسودہ ابھی کابینہ اور سی سی ایل سی میں ڈسکس نہیں ہوا۔ اس بل پر کچھ عرصہ سے ہماری مشاورت جاری تھی۔ یہ مشاورت پہلے کیوں شروع ہوئی، یہ بتاؤں گا،
انتخابات کے بعد جب حکومتی اتحاد تشکیل پا رہا تھا تو دو اتحادی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کمیٹیاں بنائیں۔ اس کے بعد ہماری انگیجمنٹ ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ قاف، بلوچستان عوامی پارٹی، اعجاز الحق ، مالک بلوچ، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی گو ناراض ہیں، اس کے باوجود ان سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی، سب سے بات ہوئی یہ سیاست کا حسن ہے۔
حکومت سازی کے لئے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے جو معاملات طے ہوئے اس مین یہ بھی شامل تھا کہ حکومت بن جائے تو اس کے بعد اولین فرصت میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے اب تک عملدرآمد نہ ہو پانے والے نکات پر کام کیا جائے گا؛ اس میں کیا شامل تھا، آئینی عدالت کا قیام اور انیسویں ترمیم، سنہ 1973 سے لے کر جو کچھ آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوا اس کے اثرات کو دور کرنے کے لئے اور آئین میں اب تک سامنے آنے والی تمام کمیوں کو دور کرنے کے لئے آئین میں 18 ویں ترمیم پر کام کیا گیا۔ یہ ترمیم پاس کرنا اس وقت کی پارلیمنٹ کا بہت بڑٓ کام تھا۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں اپنے ان سینئیرز کو جنہوں نے یہ آئیڈیا کنسیو کیا، اس پر کام کیا۔ اس میں چاروں اکائیوں کو برابری پر رکھا گیا تاکہ پاکستان آگے بڑھے۔
آئینی عدالت کی تشکیل کو 18 وین ترمیم کے وقت کس نے روکا؟
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں، پوچھیئے اعتزاز احسن سے، پوچھیئے نوید قمر اور خواجہ آصف سے وہ کون سی طاقت تھی جس نے کہا تھا کہ آئینی عدالت نہیں بننی چاہئے۔ وہ کون تھے جس نے کہا تھا کہ اگر 19 ویں ترمیم کر کے ججوں کی اپوائنٹمنٹ اور ریگرلرائزیشن کے متعلق ہمارے اختیارات لینے کی کوشش کی گئی تو ہم 18 ویں ترمیم کو سٹرائیک ڈاؤن کر دیں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون کے طالب علم کی حیثیت سے اور اس پارلیمان کا کمترین حصہ ہونے کی حیثیت سے میرے ذہن میں کوئی وہم نہیں کہ قانون ساز پارلیمان کا اختیار ہے کہ وہ آئینی ڈھانچہ کے اندر رہتے ہوئے کچھ بھی قانون سازی کرے۔ہم اپنی وقتی ضرورتوں اور ہم اپنی مخالفتوں کی وجہ سے کہ آج ہمیں یہ سوٹ کرتا ہے اور آج ہمیں یہ سوٹ کرتا ہے، ہم ایک دوسرے کی داڑھیاں کھینچتے رہتے ہیں اور اپنی طاقت ان کی جھولی میں ڈال آتے ہیں۔
ڈائرکیشن آپ کو طے کرنا ہے
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خدارا اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑا ہوں، پچیس کروڑ عوام نے آپ کو یہ اختیار دیا ہے کہ آپ نے ڈائریکشن طے کرنی ہے۔آپ نے بتانا ہے ہے کہ ملک کو کیسے چلانا ہے۔ چیف جسٹس نے چینی کا نرخ طے نہیں کرنا، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں کہنا کہ کون سی سیاسی جماعت کو کس طرح چلنا ہے، منشور میرے قائدین نے دینا ہے، آپ نے دینا ہے، انہوں نے دینا ہے۔
ڈیم بنائے ہیں انہوں نے دیکھ لیں چل رہے ہیں، پانی بھی آ رہا ہے، بجلی بھی آ رہی ہے وہاں سے، پیسے انٹریسٹ والے اکاؤنٹ میں ڈال کے چلے گئے۔۔۔
اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں ترمیم کی تیاری کے عمل پر بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خدارا جذبات سے بالاتر ہو کر دیکھیں، جب یہ گفتگو آگے بڑھی ، پروپوزلز آتی گئیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں خیبر پختونخواہ میں جو کچھ ہوا، بلوچستان مین جو واقعات ہوئے، ہم اپنے بلوچستان کے اور پختونخوا کے عوام کی ہمت کو ، ان کے جذبے اور قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رہاست کو قائم رکھنے کے لئے بے تحاشا قربانیاں دی ہیں۔
جب بلوچستان مین پنجاب کے غریب شہریوں کو سلاٹر کرنے کا واقعہ ہوا، خیبر پختونخوا مین جب سرج بڑھی تو ایپکس کمیٹی میں دو تجاویز آئیں، کہ ملک جل رہا ہے ہم یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ سن سیٹ کلاز کے ساتھ جیسے آپ نے اے پی ایس کے بعد دہشتگردی سے لڑنے کے لئے ملٹری کورٹس بنائی جائیں، وہاں فیصلہ نہیں ہوا، کہا گیا کہ اتفاق رائے سے یہ کرنا چاہئے۔ چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں اپنے سول جوڈیشل سسٹم کو امپروو کریں گے۔ فوج قربانیاں دے رہی ہے، ہم ان قربانیوں کو رائیگاں نہین کریں گے۔ اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔ یہی بات مالک بلوچ نے کہی کہ یہ ٹائم درست نہیں ہو گا، یہی بات مولانا کے سامنے بھی رکھی گئی، اس ترمیم میں ایک نکتہ یہ تھا کہ حراستی مرکز کی بھی دوبارہ اجازت دی جائے تاکہ مسنگ پرسنز کے مسئلہ کا بھی حل نکلے، مولانا نے کہا کہ اس کا اچھاحل نکل سکتا ہے تو ضرور کریں لیکن اس پر مزید سوچ لیں۔ اسے ابھی نہ کیا جائے۔ اس وقت یہ تجویز ڈراپ کر دی گئی۔
اسی کے ساتھ جڑا ہوا آرٹیکل 8 بھی تھا، یہ سوچ غلط ہے کہ اس آرٹیکل 8 کے ذریعہ آپ (پی ٹی آئی) کے پیچ کسنا تھے تو یہ سوچ آپ کے تو معاملات پہلے ہی عدالتوں میں ہیں، تعصب کی عینک ایک طرف رکھ کے تھوڑا آگے چلیں۔