(تحریر میاں افتخار رامے) میں جمعرات کو آفس گیا تو میری سب سے پہلی ملاقات ایڈیٹر سپورٹس سے ہوئی۔ حال احوال کے بعد ہم نے میچ پر تبصرہ شروع کردیا میرا پہلا سوال تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان ٹیم سری لنکا سے میچ جیتے گی کیونکے ٹیم سلیکشن انتہائی بری ہے اور کرکٹ بورڈ نے شیڈول بنانے سے پہلے ایک مرتبہ بھی نہیں سوچا کہ ٹیم کو ایک دن ملتان ، دوسرے دن کولمبو اور تیسرے دن لاہور کھیلانے سے ہمارے کھلاڑی تھک جائیں گے انہوں نے فروٹ باکس میری طرف بڑھایا اور کہا کہ میاں صاحب فروٹ کھائیں ابھی تو میچ شروع ہوا ہے امید ہے کہ ہم سری لنکا کو باآسانی شکست دے دیں گے ۔
میں نے مسکراتے ہوئے انہیں جواب دیا کہ بچپن سے یہ ہی سنتے آئے ہیں کہ کرکٹ بائے چانس کھیل ہے اس میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن کبھی کبھی آپکو میچ کا رزلٹ پہلے ہی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ پاکستان میچ جیتنے کے لیے نہیں کھیل رہا اور دوسرا ایشیا کپ کی 39 سالہ تاریخ میں جب کبھی بھی انڈیا اور پاکستان کے فائنل کھیلنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں رنگ میں بھنگ سری لنکا نے ہی ڈالا ہے ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ میرے انڈین سورسز کا بھی یہ کہنا ہے کہ فائنل سری لنکا اور بھارت ہی کھلیں گے ۔ لیکن جب تک میچ ختم نہیں ہوتا کچھ نہیں کہہ سکتے۔
خیر جیسے تیسے کرکے پاکستان نے 42 اورز میں سری لنکا کو 252 رنز کا ہدف دے دیا۔ جو ایک اچھا فائٹنگ اسکور تھا۔ سری لنکا نے بیٹنگ شروع کی تو چند اورز بعد ایسا لگ رہا تھا کہ وکٹ بہت آسان ہے اور سری لنکن ٹیم آسانی سے مقررہ اورز سے پہلے ہی یہ حدف حاصل کرلے گی ۔ لیکن چاچا افتخار کی اچھی بولنگ نے سری لنکا کے لیے مشکلات پیدا کردیں اور آخری اورز دلچسب ہوگئے۔
پورے میچ میں پاکستان کی فیلڈنگ انتہائی ناقص تھی رضوان نے ایک کیچ اور ایک رن آوٹ مس کیا۔ اور تو اور شاداب خان نے زیادہ ہوشیاری دیکھتے ہوئے شاہین کے سیکنڈ لاسٹ آور میں فضول کے دو رنز دیئے۔ یہ دو رنز ہی پاکستان کی شکست کا سبب بنے۔ شاداب خان فیلڈنگ کے ساتھ ساتھ بولنگ اور بیٹنگ میں بھی ناکام ہوچکے ہیں۔ یہ وہ ہی شاداب خان ہیں جو اپنی گگلیوں سے بلے بازوں کو نچا دیا کرتے تھے لیکن وہ ساری شہرت گئے دنوں کی یاد سی بنتی جارہی ہے۔
پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی کپتانی بری نہیں بلکے بے حد بری تھی۔ تھرو آؤٹ ٹورنامنٹ ایک تو ٹیم سلیکشن انتہائی ناقص تھی، طیب طاہر اور سعود شکیل کے ہوتے ہوئے ٹی ٹونٹی کھلاڑی کھیلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔دوسرا اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ آخری اور پر فیلڈنگ کس طرح سیٹ کرنی ہے ۔ ساری دنیا کے کپتان بولر کی بولنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے فیلڈنگ کھڑی کرتے ہیں لیکن موصوف نے اتنہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی ۔ اگر فیلڈنگ ساری آف سائیڈ پر رکھی ہوئی تھی تو پھر زمان خان کو یہ بھی سمجھانا تھا کہ آپ نے آخری بال آف سائیڈ یارکر کرنی ہے لیکن اس نے حسب معمول لیگ سائیڈ پر ہی گیند کروایا جہاں پر دور دور تک کوئی بھی فیلڈر موجود نہیں تھا۔ میچ ہارنے کے بعد سب سے زیادہ غصّہ کپتان پر ا رہا تھا کہ کیا نمبر ون ٹیم کا کپتان ایسا ہوتا ہے ؟
کیا ورلڈ نمبر ون ٹیم کی کارکردگی ایسی ہوتی ہے؟ کیا ورلڈ کلاس بولنگ ایسی ہوتی ہے؟ کیا ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیم کی فیلڈنگ ایسی ہوتی ہے ؟ مجھے تو لگتا ہے کہ آئی سی سی کی رینکنگ وغیر سب ڈرامہ ہے اور سب کچھ جعلی ہے ۔ ہمارا کپتان ہو یا ہماری ٹیم یہ سب مصنوعی طریقے سے نمبر ون بنے ہوئے ہیں ۔ کیونکے اگر میچ فکسنگ ہو سکتی ہے تو رینکنگ بھی جعلی بن سکتی ہے۔ پاک بھارت میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کے آفیشلز کی کسینو میں انجوائے کرنے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ 2015 کے بعد تقریباً 8 سال بعد ایسا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف نے میڈیا ہیڈ عمر فاروق اور جی ایم عدنان علی کو شو کاز بھی جاری کردیا ہے۔ اگر بات شوکاز سے آگے بڑھی اور تحقیقات غیر جانبدارانہ ہوئیں تو قومی امکان ہے کہ پاکستان کا بھارت اور سری لنکا سے میچ فیکس ہونے کا نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔