ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سبکدوشی سے قبل چیف جسٹس بندیال نے وزیراعظم سے آخری فرمائش کیا کی؟

سبکدوشی سے قبل چیف جسٹس بندیال نے وزیراعظم سے آخری فرمائش کیا کی؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

مانیٹرنگ ڈیسک: اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے حکومت سے خواہش ظاہر کی تھی کہ قواعد و ضوابط اور پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے اور صرف ایک مرتبہ کیلئے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ان درجنوں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کو پکا (ریگولر) کیا جائے جو سپریم کورٹ کے ریسٹ ہاؤسز، لاجز اور رجسٹری میں مینٹی ننس کا کام کرتے ہیں۔

سرکاری دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ 22 اگست 2023 کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ میں ہونے والی ایک میٹنگ شریک میں سرکاری افسران کو بتایا کہ چیف جسٹس نے خواہش کی ہے کہ مذکورہ ملازمین کو ریگولر کیا جائے اور اس کیلئے پی ڈبلیو ڈی کے قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے ریگولرائزیشن کا عمل شروع کرنا چاہیے اور نئی بھرتیوں کی بجائے مذکورہ ملازمین کو ترجیح دی جائے۔

چند روز قبل، 11 ستمبر کو، وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے فوری طور پر ’’وزیراعظم کیلئے سمری‘‘ ارسال کی جس میں اوپن اشتہار، اہلیت، عمر کی بالائی حد اور ’’منتخب لاٹ‘‘ کو پکا کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سرپلس پول سے این او سی کی شرط میں نرمی کی درخواست کی گئی۔ 

اس وقت یہ سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں موجود ہے اور ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کیس کو فوری طور پر وزیراعظم کی منظوری کیلئے وزیراعظم آفس کو بھجوانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ماضی میں قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے اس طرح کی بھرتیوں کیخلاف متعدد فیصلے کر چکی ہے لہٰذا، اس معاملے میں اُن کے ہاتھ بندھے ہیں۔ 

وزیر اعظم کیلئے 11 ستمبر کو سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں لکھا ہے کہ ججز انکلیو اسلام آباد، ججز لاجز مری، سپریم کورٹ برانچ رجسٹری پشاور اور جوڈیشل لاجز پشاور میں دیکھ بھال کے انتظامات پی ڈبلیو ڈی کے پاس ہیں اور ان مقامات پر دیکھ بھال اور مینٹی ننس کے کام پر یومیہ اجرت پر رکھے گئے 81؍ ملازمین کام کر رہے ہیں۔ 

اس سلسلے میں رجسٹرار سپریم کورٹ کی زیر صدارت 10 مارچ کو ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ان ملازمین کو پکا کرنے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں مذکورہ بالا مقامات پر مختلف آسامیاں پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

 بعد ازاں انٹر ڈویژن مشاورت کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن کی جانب سے پی ڈبلیو ڈی میں 103 اسامیاں تخلیق کرنے کی حتمی منظوری دی گئی اور ضابطے کی تمام کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد اخراجات پی ڈبلیو ڈی کیلئے مالی سال 2023-2024 میں مختص کردہ فنڈ سے پورے کیے جائیں گے۔ لہٰذا، 22؍ اگست کو سپریم کورٹ میں ہونے والے اجلاس کے دوران رجسٹرار سپریم کورٹ نے درخواست کی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی خواہش ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی مذکورہ سیٹ اپ میں پہلے سے کام کرنے والے ورک چارج/ دستے/ یومیہ اجرت والے ملازمین کو پکا کرنے کا عمل شروع کر سکتا ہے اور ایسے ملازمین کو نئی بھرتیوں میں ترجیح دینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ 

سرکاری دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ عملے کی ریگولرائزیشن کسی وزارت/ ڈویژن یا محکمے کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ سول سرونٹس ایکٹ، 1973 یا اس کے تحت بنائے گئے قواعد میں ایک باقاعدہ اسامی کے حوالے سے روزانہ اجرت/ ورک چارج وغیرہ پر کام کرنے والے عملے کو پکا کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں لکھی۔ تاہم سپریم کورٹ کی خواہش کے مطابق پاک پی ڈبلیو ڈی نے ایک باضابطہ تجویز پیش کی ہے کہ ان ملازمین کو صرف ایک مرتبہ کے کیس کے طور ریگولرائز کرنے کی اجازت دی جائے۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ بھرتی کے قواعد اور پالیسی وزیر اعظم کی منظوری سے جاری کردہ سول سرونٹس (تقرری، پروموشن اور ٹرانسفر) رولز 1993 کے تحت وضع کی گئی تھی، لہٰذا، وزیر اعظم ان قواعد اور پالیسیوں میں کسی طرح کی نرمی کی اجازت دینے کے مجاز ہیں۔ لہٰذا، تجویز ہے کہ وزیر اعظم اس وزارت کے انچارج وزیر ہونے کی حیثیت سے اس سمری کو جمع کرانے کی اجازت دیں اور پی ڈبلیو ڈی رولز اور پالیسی میں نرمی کی اجازت دے تاکہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے سپریم کورٹ کی مذکورہ بالا عمارتوں میں مینٹی ننس کے کام پر مامور 81؍ ڈیلی ویجز ملازمین کو پکا کیا جا سکے۔