جاتی امرا میں چارٹر آف ڈیموکریسی  پر عملدرآمد پر اتفاق

16 Oct, 2024 | 08:38 PM

Waseem Azmet

سٹی42:  مولانا فضل الرحمٰن ،  بلاول بھٹو زرداری ،  مریم نواز ،  وزیر اعظم شہباز شریف  لاہور کے نواح میں رائے ونڈ سے کچھ کلومیٹر دور جاتی امرا میں نواز شریف کے گھر پر پاکستان کے آئین میں اہم ترین ترامیم کے منصوبہ کو روبہ عمل لانے کے لئے اپنی حکمتِ عملی کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ اس آئینی ترمیم کے زریعہ حکومت میں شامل مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی  کے 14 مئی 2006 کو لندن میں دستخط کئے ہوئے چارٹر آف ڈیموکریسی کے اہم نکتہ پر عملدرآمد کرنے کی سعی کر رہی ہیں۔

ذمہ دار ذرائع کے مطابق جاتی امرا میں عشائیہ کے بعد ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ نون کے صدر میاں نواز شریف اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اس امر پر اتفاق ظاہر کیا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر عملدآمد کرنا چاہئے۔ 

 اجلاس میں نوازشریف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں میثاق جمہوریت کی شقوں پر عملدرآمد ہو،ملک کوسب نے ملکر آگے لے کر چلنا ہے،آصف زرداری نے کہاکہ میاں صاحب میثاق جمہوریت کی تمام شقوں پرعملدرآمد کرنے کا وقت ہے۔

بدھ کی شب وزیراعظم شہباز شریف، صدرِ مملکت آصف علی زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز سب لوگ باری باری جاتی امرا  لاہور پہنچ چکے تھے   ۔ آخر میں جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان جاتی امرا پہنچے جہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے گھر کے دروازے پر آ کر ان کا استقبال کیا۔ 

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی مولانا کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے ۔ مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی جاتی امرا آئے ہیں۔ ہیں۔

نواز شریف   کی جانب سے اپنی رہائش گاہ پر آج  عشائیہ دیا  گیا جہاں پر  مجوزہ 26 ویں  آئینی  ترمیم  پر  تین بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے اتفاق رائے کا رسمی اعلان کیا جانا متوقع تھا۔ 

مولانا فضل الرحمان کے غیر معمولی پرتپاک استقبال کا پس منظر

جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان فروری کے الیکشن سے پہلے وفاقی حکومت میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحادی کی حیثیت سے حکومت میں شامل تھے۔ فروری 2024 کے الیکشن میں انہوں نے خود کے ساتھ دھاندلی کے الزامات کے ساتھ احتجاجی تحریک شروع کر دی تھی اور وفاقی حکومت میں اپنے سابق اتحادیوں کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ تب سے اب تک مولانا فضل الرحمان احتجاج کی سیاست کرتے آ رہے تھے، انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودہ کی سخت مخالفت کی تھی اور کسی بھی قیمت پر اس ترمیم کو منظور نہ ہونے دینے کا عندیہ دیا تھا۔ کئی ہفتوں کی مشاورت، بحث و تمحیص اور مذاکرات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اپنے والد  اور والدہ کے سابق حلیف مولانا فضل الرحمان کو 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودہ  کو قابل قبول بنانے کے لئے اس میں مناسب قطع و برید کر کے ایک حتمی مسودہ پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشاورتوں کے آخری مرحلہ میں مولانا فضل الرحمان کی مسلم لیگ نون کے قائد اور اپنے دیرینہ اتحادی میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ آج مولانا کی جاتی امرا تشریف آوری سے پہلے ان کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم پر  اتفاق ہونے کا مژدہ جاتی امرا پہنچ چکا تھا.

مولانا فضل الرحمان اور ان کی جمعیت علما اسلام کا 26 وین آئینی ترمیم پر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ متفق ہو جانا بظاہر تو ایک ہی خاص موضوع کی حد تک اتفاق رائے ہے تاہم یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس اہم پیش رفت کے بعد ماضی کے اتحادی دوبارہ ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں جا سکیں گے۔ 

مزیدخبریں