سٹی42: پی ٹی آئی کے بانی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ کیلئے نا اہل قرار دیئے جانے سے دنیا بھر میں ان کے حامیوں میں مایوسی کی لہر پھیل گئی۔ عمران خان کے قریبی مشیروں کا ایک گروپ انہیں برطانوی یونیورسٹی کا چانسلر بنوا کر اڈیالہ جیل سے نکال کر انگلینڈ پہنچانے کے لئے سنجیدگی سے کوشش کر رہا تھا۔ اب اس ساری کوشش پر پانی پھر گیا۔
عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے تحریکِ انصاف کے بانی کو امیدوار منتخب نہ کیے جانے کے حوالے سے بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی مایوس کن خبر ہے۔
ذلفی بخاری نے حال ہی میں عمران خان کی میڈیا اور آکسفورڈ کی چانسلر شپ کی مہم کرنے کیلئے دو تین لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کی تھیں۔ وہ بہت بڑے پیمانے پر لابنگ کر کے عمران خان کو چانسلر بنانے کے لئے از حد سنجیدگی سے کام کر رہے تھے۔
ایک روز پہلے زلفی بخاری نے کہاتھا کہ کسی کو لابنگ فرم کی خدمات کے حصول پر تکلیف نہیں ہونی چاہیے کیونکہ میں نے اس کیلئے کسی سے پیسے نہیں لیے ہیں، یورپ میں مہم شروع ہوگی تو یورپین ماہرین کی خدمات بھی حاصل کریں گے۔
آج چانسلر کے امیدواروں کی فہرست میں شامل نہ کئے جانے پر زلفی بخاری نے کہا کہ ’عمران خان عالمی آواز ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ انھیں اس انتخاب میں شرکت نہ کرنے دی جائے۔‘ زلفی بخاری نے کہا کہ عمران خان کو چانسلر کے انتخاب میں شرکت کے لیے منتخب نہ کرنا خود ’آکسفورڈ یونیورسٹی کا نقصان ہے جو خود کو عالمی رجحان ساز ادارے کے طور پر پیش کرتی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان ان دنوں کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور راولپندی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان پر کئی دیگر سنگین نوعیت کے اعتراضات بھی ہیں جن میں سرفہرست عورتوں کے متعلق ان کے منفی خیالات ہیں۔ عمران خان کے حامی ان کی مرضی کے ساتھ انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر منتخب کروانے کی کیمپین تو کئی ہفتوں سے چلا رہے تھے جس نے اس رسمی مگر باوقار عہدے کے انتخاب کے حوالے سے بہت زیادہ ڈسکس ہونے والے تنازعہ کو جنم دیا اور اس عہدہ کیلئے امیدوار ہونے والوں کے اخلاقی میعار اور ان کے خیالات اور کنڈکٹ کے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے، اس سب بحث کا واحد موضوع عمران خان کی ذات تھی جن کے بارے میں ان کے حامی کچھ بھی سمجھتے رہیں لیکن لوگوں کو ان کے بعض خیالات اور کنڈکٹ پر سیریس اعتراضات تھے جو اس بحث کے دوران بار بار سامنے آئے۔ اس بحث کو لے کر آکسفورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مخصوص خیالات رکھنے کی وجہ سے عمران خان کو چانسلر کے عہدہ کیلئے امیدوار بننے کی اجازت نہ دے۔ اس دباؤ کا نتیجہ آج سامنے آ گیا جب یونیورسٹی انتظامیہ کی امیدواروں کی فہرست میں پی ٹی آئی کے بانی کا نام شامل نہیں نکلا۔
بانی کی جانب سے انگلینڈ کی سب سے باوقار قدیم یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب میں شرکت کے لیے امیدوار بننے کی درخواست مقررہ مدت کے آخری دن 18 اگست 2024 کو جمع کروائی گئی تھی جس کا اعلان عمران خان کے مشیر زلفی بخاری ہی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا تھا۔
اس وقت اس بارے میں بین الاقوامی نشریاتی ادارہ سے گفتگو کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا تھا کہ ’عمران خان کیوں نہ ان انتخابات میں حصہ لیں، یہ ایک انتہائی باوقار منصب ہے۔‘ زلفی بخاری نے بھی عمران خان کے دیگر حامیوں کی طرح یہ دلیل دی کہ ’وہ (عمران خان) ماضی میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں اور انھوں نے یہ اہم ذمہ داری بڑی دیانت داری سے نبھائی۔ لہٰذا وہ اس منصب کے لیے سب سے زیادہ اہل شخص ہیں۔ زلفی بخاری نے عمران خان کے سنگین جرائم میں ملوث ہونے اور سزا یافتہ ہونے کے حوالے سے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے کیس ختم ہو رہے ہیں اور اگر وہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ انشاء اللہ دسمبر تک ذاتی طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔‘
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ چانسلر کے انتخاب کے لیے ’اوپن ایپلیکیشن پراسیس‘ استعمال کیا گیا تاکہ مختلف پس منظر والے امیدواران سامنے آ سکیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے آج ریلیز کی گئی امیدواروں کی لسٹ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "چانسلر الیکشن کمیٹی نے تمام درخواستوں کو یونیورسٹی کے ضوابط کے تحت طے شدہ معیار پر پرکھا " جس کے بعد 16 اکتوبر کو 38 امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی گئی ہے .
آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کیلئے پانچ پاکستانی امیدوار
دل چسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے پاکستانیوں کی طرف سے بھ یآکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کے لئے درخواستیں بھیج دی گئیں۔ عمران خان کی نامزدگی کی درخواست تو مسترد ہو گئی لیکن امیدواروں کی جو لسٹ کمیٹی نے منظور کی ہے اس میں کم از کم پانچ افراد ایسے ہیں جنھوں نے اپنا تعلق پاکستان سے ظاہر کیا ہے۔
آکسفورڈ کا چانسلر کیا کرتا ہے؟
اس عہدے پر کامیاب امیدوار کا تقرری 10 سال کے لیے ہوگا تاہم یہ ایک ’سیریمونیئل‘ یعنی اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کسی طرح کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا (رسمی)تقرر کرنا، اہم تقریبات کی صدارت کرنا ، فنڈ جمع کرنے اور مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی کرنا چانسلر کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیوسٹی کے چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں ان کا شرکت کرنا لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔
چانسلر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے
نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل ’چانسلر الیکشن کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔
عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقۂ انتخاب کو ’کونووکیشن‘ کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔
ووٹنگ28 اکتوبر، الیکشن کے دو راؤند
یونیورسٹی کے مطابق نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ 28 اکتوبر سے شروع ہو گi اور دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کا انتخاب کر سکیں گے۔
10 سے کم امیدواروں کی صورت میں انتخاب کا صرف ایک دور ہوتا ہے تاہم اس مرتبہ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں انتخابی عمل کا دوسرا راؤنڈ 18 نومبر کو شروع ہوگا۔
اس الیکشن میں موجودہ طالبعلم، یونیورسٹی کے ملازمین بشمول اساتذہ اور کسی سیاسی عہدے کے امیدوار حصہ نہیں لے سکتے۔
اپنی خواہش سے ریٹائرڈ ہونے والے چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ 80 سالہ لارڈ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر رہے اور اس سے قبل برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے۔ فوٹو بذریعہ گوگل
آکسفو ڈ کے مشہور پاکستانی طالب علم
عمران خان نے پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کی ابتدا میں آکسفرڈ یونیورسٹی سے منسلک کیبل کالج (Keble College) میں داخلہ لیا تھااور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں معمولی گریڈز کے ساتھ گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔ اس دوران بینظیر بھٹو بھی آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور وہ یونیورسٹی کی مقبول ترین سٹوڈنٹ تھیں بینظیر بھٹو کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین میں بھی کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ ان کے برعکس عمران خان کو ان دنوں یونیورسٹی میں ایک کم نمایاں سٹوڈنٹ سمجھا جاتا تھا اور بعض لوگ انہیں مسٹر ڈِم بھی کہتے تھے۔
اب 71 سال کی ہو چکے عمران خان پاکستان کی ان پانچ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا ذکر برطانیہ کی اس سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنی ’فیمس اوکسونیئنز‘ کی فہرست میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق احمد لغاری کے ساتھ کیا ہے۔
اس فہرست میں ان مشہور شخصیات کے نام شامل ہیں جنھوں نے یہاں سے گریجویشن کی یا درس دیا، اور کسی نہ کسی شعبے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر کے اپنا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں ثبت کیا۔ ان میں 28 برطانوی وزرائے اعظم، 30 بین الاقوامی لیڈر، 55 نوبیل انعام یافتہ ہستیاں اور 120 اولمپک میڈل جیتنے والے شامل ہیں۔
عمران خان دسمبر 2005 سے نومبر 2014 تک برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈفورڈ کے چانسلر رہے ہیں تاہم انہین وہاں بھی اپنی متنازعہ شخصیت پر بہت زیادہ تنقید ہونے کے بعد استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ ۔
یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی آٹھ سالہ چانسلر شِپ کے دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نئے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر تھیراپیوٹِکس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد سے اس انسٹی ٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے درمیان قریبی رابطے رہے ہیں۔
عمران خان جب اس عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر برائن کینٹر، نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا: ’وہ یونیورسٹی کے لیے ایک ممتاز سفیر اور ہمارے طلبہ کے لیے زبردست رول ماڈل رہے ہیں۔‘
عمران خان کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننا کیوں اہم تھا؟
عمران خان کے حامیوں کا نکتہ نظر یہ ہے کہ سابقہ تجربے، یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے دیرینہ تعلق، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوامی فلاح کے کام اور کرکٹ کی دنیا میں شہرت انھیں چانسلرشِپ کا ایک مضبوط امیدوار بناتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے قریبی مشیر انہیں ایک باوقار یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ پر پہنچانے کے لئے بھاری رقوم خرچ کر کے بہت بڑے پیمانہ پر لابنگ کرنے کے لئے پلان کر چکے تھے۔ اس پلان پر عملدرآمد ہو جاتا تو چانسلر کے عہدہ کے تمام دوسرے امیدواروں سے کئی سو گنا بڑی کیمپین چلا کر عمران خان کو یونیورسٹی کا چانسلر منتخب کروانے کے بعد یہ مہم چلائی جاتی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے برطانیہ کی معزز یونیورسٹی کے معزز چانسلر کو صرف انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کے لئے جیل میں قید کر رکھا ہے اور ان پر بنائے گئے تمام مقدمے جھوٹے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی تنازع پر لکھی جانے والی کتاب ’پولٹیکل کنفلیکٹ ان پاکستان‘ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ آکسفرڈ چانسلر ایک اعزازی قسم کا عہدہ سمجھا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بہت شہرت رکھتے ہیں۔
چانسلر منتخب ہو کر عمران کیلئے پاکستان سے باہر نکلنا آسان ہو جاتا
ڈاکٹر وسیم کے مطابق ’عمران خان کے لیے پہلے بھی دو تین بار اس عہدے کے لیے کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان حالات میں اگر عمران خان کو آکسفرڈ جیسی یونیورسٹی کی چانسلرشپ ملے تو پھر یہ ان کے لیے بہت ہمدردی پیدا ہو گی۔‘
عمران خان کی جانب سے بطور امیدوار درخواست جمع کروائے جانے کے موقع پر ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارہ سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر وسیم کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر کسی بھی حکومت کے لیے انھیں روکنا انتقامی اقدام تصور کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وسیم کے مطابق عمران خان کے لیے باعزت طور پر یہ پاکستان سے نکلنے کا بھی ایک اچھا موقع ہوگا۔
"سفارتی تنازعہ پیدا ہو جاتا"
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی رائے میں ’اگر پاکستانی حکام نے عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد بھی ان کا رستہ روکنے کی کوشش کی اور انھیں باہر نہ جانے دیا تو پھر ایسے میں سفارتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘ شمشاد احمد خان جو عمران خان کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدہ کو عمران خان کے اڈیالہ جیل سے نکل کر آکسفورڈ پہنچ جانے کا پروانہ تصور کر رہے تھے۔
تاہم ڈاکٹر وسیم اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان اور برطانیہ کبھی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کو لے کر سفارتی تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔‘
ڈاکٹر وسیم کے مطابق ’اس سے قبل امریکہ اور برطانیہ میں عمران خان کی رہائی سے متعلق قراردادیں بھی منظور ہوئیں مگر ان چیزوں کا سفارتی تعلقات پر اثر نہیں پڑا۔‘ تاہم ڈاکٹر وسیم اس بات سے متفق ہیں کہ برطانیہ میں عمران خان کی اچھی شہرت ہے اور وہ اس عہدے کی دوڑ کے لیے ایک اہم امیدوار ضرور تصور کیے جا رہے ہیں۔
چانسلر بن کر "عمران کی جیل میں رہنے کے باوجود مقبولیت" کا نیریٹِو لایا جاتا
پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عمران خان اگر آکفسرڈ کے چانسلر بن جاتے ہیں تو ان کے لیے اس رول میں کام جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ابھی وہ جیل میں ہیں اور متعدد مقدمات کا انھیں سامنا ہے۔‘
سفارتی تعلقات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کسی سیاسی رہنما کی وجہ سے ریاستی یا سفارتی تعلقات پر حر ف نہیں آنے دیتا البتہ سول سوسائٹی یا عوام کی حد تک عمران خان کے حق میں سامنے آنا اور بات ہے۔‘ عبدالباسط کے مطابق ’امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے عمران خان کی گرفتاری اور ان کے مقدمات سے متعلق زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔‘
ان کی رائے میں ’عمران خان کا بھی بنیادی مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ اس طریقے سے سیاسی سکورنگ کرنا چاہتے ہیں اور سب کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جیل میں رہ کر بھی کتنے مقبول ہیں کہ دنیا کی ایک بہترین یورنیورسٹی نے انھیں اپنا چانسلر چنا ہے۔‘
کیرئیر ڈپلومیٹ عبدالباسط کو امید نہیں تھی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی عمران خان کو امیدوار بننے کی اجازت دے گی۔ انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا، ’ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آکسفورڈ کے اصول و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی سزا یافتہ شخص، اس بحث سے ہٹ کر کہ یہ سزا درست انداز سے ہوئی یا نہیں، اس کا چانسلر بن سکے؟‘
عمران خان کی مخالفت
آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے معاملے پر معروف قانونی فرم میٹرکس چیمبرز نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے ضوابط کے مطابق چانسلر شپ کے اہل نہیں ہیں۔
انگلینڈ کے سینئر قانون دان ہیوساؤتھی کے مطابق بانی پی ٹی آئی مجرمانہ سزا پانے کے سبب اس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔