اسرائیل کو  راکٹ اور میزائل روکنے والے انٹرسیپٹرز کی ممکنہ کمی کا سامنا

16 Oct, 2024 | 03:05 AM

Waseem Azmet

سٹی42:  اسرائیل کو غزہ اور اب لبنان میں ایک سال سے جاری جنگ کے دوران اپنے فضائی دفاعی نظام میں راکٹ اور میزائل انٹرسیپٹرز کی ممکنہ کمی کا سامنا ہے، اور جب وہ ایران کے ساتھ ممکنہ بڑھتے ہوئے تنازعے کی تیاری کر رہا ہے، اس کمی کا سوال زیادہ شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔

انگلینڈ کی نیوز آؤٹ لیٹ فنانشل ٹائمز نے ڈیفینس کے ماہرین اور سابق فوجی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اس معاملے کو حل کرنے میں یہودی ریاست کی مدد کر رہا ہے، خاص طور پر ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس میزائل سسٹم (THAAD) بھیجنے کے اپنے وعدے کے ذریعے، لیکن یروشلم خود کو تیزی سے  اس صورتحال کی طرف جاتا دیکھ رہا ہے جب اسے  ہر حملے کے دوران یہ فیصلہ درپیش ہو گا کہ کس ہدف کو روکا جائے اور کس کو نظر انداز کر دیا جائے یعنی زمین تک آنے دیا جائے۔

ایک سابق امریکی دفاعی اہلکار ن ڈانا سٹرول نے کہا۔"اسرائیل کے جنگی سازوسامان کا مسئلہ سنگین ہے،"

مفروضہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے اور  ایران اسرائیلی حملے کا جواب دیتا ہے اور  اس کے ساتھ حزب اللہ بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے تو اسرائیل کے فضائی دفاع  پر بہت زیادہ دباؤ پڑے گا۔اس امریکی عہدیدار  نے مزید کہا کہ سپلائی لامحدود نہیں اور واشنگٹن یوکرین اور اسرائیل دونوں کو یکساں رفتار سے سپلائی جاری نہیں رکھ سکتا۔

دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یمن سے  حوثی بھی اپنی تمام تر میزائلی طاقت ایران کے جوابی حملے میں جھونک دیں تو یہ زیادہ مشکل صورتحال ہو گی۔ 

اسرائیل کی میزائل انٹرسیپٹرز تیار کرنے والی کمپنی  اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کی سی ای او، بواز لیوی،نے  انٹرسپیٹرز کی ممکنہ قلت کے خدشہ کی بالواسطہ تصدیق کرتے ہوئے  کہا: "ہماری کچھ لائنیں ہفتے کے ساتوں دن 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں۔ ہمارا مقصد اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔"

اسرائیل کے کثیر پرتوں کے حامل ائیر ڈیفینس سسٹم میں آئرن ڈوم شامل ہے، جو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو مار گرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈیوڈز سلنگ، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ایرو سسٹم، جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ان تمام  ڈیفینس سسٹمز کا پیٹ بھرنے کے لئے انٹرسئپٹرز کی مسلسل سپلائی درکار ہے۔

حماس نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اپنے حملے کے ساتھ جس جنگ کو جنم دیا تھا، اس کے دوران فوجی اعداد و شمار کے مطابق، غزہ اور لبنان سے اسرائیل پر 20,000 سے زیادہ راکٹ اور میزائل داغے جا چکے ہیں، ڈیفینس سسٹمز  نے بڑی تعداد میں  ان میزائلوں کو کامیابی سے گرایا جو آبادی والے علاقوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ 

اسرائیل  امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی مدد سے دو ایرانی میزائل حملوں کو روک چکا ہے؛  ایک اپریل میں اور دوسرا حالیہ اکتوبر میں،  جب اسلامی جب ایران نے 180 بیلسٹک میزائل داغے تھے -

اب  اسرائیل نے اکتوبر کے حملے کا جواب اپنی پسند کے وقت اور انداز میں دینے کا عزم ظاہر کیا ہے، جو تہران اور اس کے اسرائیل کی سرحد کے نزدیک موجود  پراکسیوں کی طرف سے اور بھی زیادہ جارحانہ ردعمل کو جنم دے سکتا ہے۔


آئی ڈی ایف کے سابق جنرل اساف اورین کے مطابق، اسرائیل کا  تجربہ مکمل نہیں ہے کیونکہ لبنان میں ایران کی  حامی حزب اللہ نے ابھی تک اپنی پوری صلاحیت کو ظاہر نہیں کیا ہے۔

اورین نے  بتایا، "یہ (حزب اللہ)  جنگ سے پہلے کی لانچنگ صلاحیت کے تقریباً دسویں حصے پر فائر کر رہی ہے، روزانہ 2,000 کے بجائے چند سو راکٹ"۔ "اس خلا میں سے کچھ حزب اللہ کی مرضی ہے کہ وہ پورای صلاحیت استعمال نہ کرے، اور اس میں سے کچھ IDF کی طرف سے حزب اللہ کی صلاحیتے کو توڑ پھوڑ دینے  کی وجہ سے ہے… لیکن حزب اللہ کے پاس ایک مضبوط آپریشن کرنے کے لیے کافی کچھ محفوظ ہے۔"

حزب اللہ، جس نے ایک سال قبل حماس کے حملے کے بعد اسرائیل پر روزانہ حملہ کرنا شروع کیا تھا، خود حالیہ ہفتوں میں تباہ کن حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اسرائیلی فضائی حملوں نے گروپ کی قیادت کو تباہ کر دیا ہے۔

اس ماہ کے شروع میں، اسرائیل نے حزب اللہ کو سرحد سے دور دھکیلنے، اس کے اسلحے کے ذخیروں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے، اور غزہ سے حماس کے حملے کے خطرے کو دور کرنے کے لیے جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی شروع کی تھی تاہم متنوع وجوہات کی بنا پر اب تک یہ کارروائی حزب اللہ کی صلاحیت کو نمایاں حد تک توڑ نہیں سکی۔۔

مزیدخبریں