ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

’’پاکستان میں امریکہ کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے؟‘‘  

’’پاکستان میں امریکہ کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے؟‘‘  
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(روزینہ علی) سائفر کیس مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سردار لطیف کھوسہ سے سوال کر لیا کہ ’’کھوسہ صاحب یہ بتائیں کہ پاکستان میں امریکہ کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے ؟‘‘

 اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس مقدمہ اخراج اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق سماعت کر رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے دلائل جاری ہیں۔

 چیف جسٹس کا اہم سوال

 چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا  کہ کھوسہ صاحب یہ بتائیں کہ پاکستان میں امریکہ کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے ؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ اس سائفر کو تو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کردیا تھا ، اس ملک میں لیاقت علی خان کا قتل ہوا ، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے ، اگر ہم نے اپنی تاریخ سے بھی نہیں سیکھنا تو  پھر کس سے سیکھنا ہے؟

 سائفر پر دلائل

 پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے جراح کرتے ہوئے کہا کہ یہ سائفر امریکہ میں سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو بھجوایا تھا ،سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اس ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے ،چیف ایگزیکٹو کو اس کا حلف ایسی صورت حال میں اختیار دیتا ہے۔

 عدالت کے سامنے حلف نامے رکھنا

 سردار لطیف کھوسہ نے عدالت میں وزیراعظم کا حلف نامہ پڑھ کر سنانے کے بعد دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حلف کے مطابق وزیراعظم کے پاس اختیار ہے وہ جس معلومات کو سمجھے عوام کے سامنے رکھ سکتا ہے، بعدازاں سردار لطیف کھوسہ نے وفاقی وزراء کا حلف نامہ بھی عدالت کے سامنے رکھ دیا۔

  چیف جسٹس کی ہدایت

 سردار لطیف کھوسہ نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم غلام رہنا چاہتی ہے جس پر  چیف جسٹس نے سردار لطیف کھوسہ کو ہدایت جاری کی کہ سیاسی جماعتوں کا نام نہ لیں۔

 سائفر آنے کے بعد عمران خان کا لائحہ عمل

 پی ٹی آئی کے وکیل نے فاضل جج کو بتایا کہ ایک بات واضح ہے کہ بطور وزیراعظم عمران خان کے سامنے سائفر آیا ،چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کو ہائیئسٹ فارم نینشل سیکیورٹی کمیٹی میں لے کر گئے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے سائفر کو بلیٹنٹ انٹرفیئرینس قرار دیا اور سخت ڈیمارش کرنے کا فیصلہ کیا ،38 ویں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں فارن سیکریٹری کو طلب کیا گیا، فارن سیکریٹری نے سائفر کو کنفرم کیا، وزیراعظم نے بتانا ہے آپ کے ملک کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے ،یہ خود وزیر اعظم نے جج کرنا ہے کہ ملک کو کسی ایکٹ سے کوئی خطرہ تو نہیں۔

 عدالت کا وزیر اعظم کے اختیارات پر سوالیہ نشان

 عدالت نے وکیل پی ٹی آئی کے دلائل سنتے ہوئے وزیراعظم کے اختیارات سے متعلق سوال اٹھایا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں وہ جو درست سمجھتا ہے تو وہ اس کو ڈسکلوز کر سکتا ہے ؟ جس پر وکیل سردار لطیف کھوسہ نے فاضل جج کے گوش گزار کیا کہ جی بالکل وزیراعظم جو درست سمجھتا ہے وہ ڈسکلوز کر سکتا ہے ،پی ڈی ایم غلام رہنا چاہتی ہے تو رہے یہ ان کا سیاسی ہتھیار ہے، عدالت نے ایک بار پھر سردار لطیف کھوسہ کو کسی جماعت کا نام لینے سے روک دیا۔

 ماضی کا حوالہ اور موجودہ صورتحال

 سردار لطیف کھوسہ نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو صاحب کو بھی مولوی مشتاق کی کورٹ میں جنگلے میں لا کر کھڑا کیا گیا تھا، یہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی جنگلے میں لے کر آئیں، ان کو جیل میں ڈر کس چیز کا ہے؟ کیا خوف ہے؟ وہ سابق وزیراعظم ہیں ،سابق وزیر اعظم کے بھی حقوق ہیں ان کا بھی وقار ہے، یہ اعظم خان کا بیان لیکر آ گئے ہیں جو تین ہفتے لاپتہ رہا، یہ کہتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر لے گیا یہ مضحکہ خیز ہے۔

 عمران خان کی گرفتاری اور قانونی پہلو

 سردار لطیف کھوسہ نے نقطہ اٹھا یا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ایک ایسے آرڈر کے تحت گرفتار کیا گیا جس پر تاریخ تک نہیں تھی، 16 اگست کو ایف آئی اے نے جسمانی ریمانڈ مانگا جسے ٹرائل کورٹ نے مسترد کر دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا ،عدالت کل چیئرمین پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کرنے جا رہی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم اپنا قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے پارلمینٹ کو اعتماد میں لیا، انہوں نے اپنے آئینی حلف سے غداری نہیں کی