ویب ڈیسک : پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کا عالمی دن منایا جارہاہے، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے، اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات و سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے
عالمی خوراک کے مسئلے سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے اور بھوک، ناقص غذا اور غربت کے خلاف جدوجہد میں اتحاد کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 16 اکتوبر کو خوراک کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات و سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد خوراک کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات کی جانب توجہ مبذول کرانا انہیں روکنے یا نمٹنے کے لئے اقدامات تشکیل دینا ہے تاکہ غذائی تحفظ، انسانی صحت، اقتصادی ترقی، زراعت، منڈیوں تک رسائی، سیاحت اور پائیدار ترقی یقینی بنائی جا سکے۔ محفوظ خوراک کی پیداوار اور اس کا استعمال نہ صرف انسانوں بلکہ کرہ ارض اور معیشت کے لئے فوری اور طویل مدتی بنیاد پر فائدہ مند ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال 1.3 ارب ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے، جس کی مالیت ایک کھرب امریکی ڈالرز بنتی ہے۔ اس ضائع شدہ غذا کا روزانہ کے حساب سے تخمینہ لگایا جائے، تو مجموعی طور پر سیر شکم دنیا، یومیہ 35 لاکھ ٹن خوراک ضائع کر رہی ہے، جس کی مالیت کا یومیہ تخمینہ 2 ارب 73 کروڑ امریکی ڈالرز یعنی 4 کھرب 47 ارب پاکستانی روپوں سے بھی زیادہ ہے۔ اگر سمجھنے کی غرض سے یہ تصور کیا جائے کہ دنیا بھر کا سال بھر کا کھانا دنیا میں کسی ایک جگہ پر جمع کرنا ممکن ہو، تو وہ یقیناً اس کرۂ ارض پر اتنی جگہ گھیرے گا، کہ دنیا کے نقشے پر کسی ملک کی طرح نظر آنے لگے، اور اگر ضائع شدہ کھانا ایک ملک ہو تو، امریکا اور چین کے بعد، دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہو ۔
میٹھا پانی زمین کے سب سے قیمتی وسائل میں سے ایک ہے، اور دنیا بھر میں اس کا 70 فیصد زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس میں فصلوں کی آبپاشی اور مویشیوں کے لیے پینے کا پانی شامل ہے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ صرف ایک سیب کی پیداوار میں اوسطا 125 لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پکے، رسیلے سیب کو پھینک دینا 125 لیٹر پانی نالے میں بہا دینے مترادف ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 900 ملین ٹن سے زیادہ کھانے کی اشیا ضائع کر دی جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماحول سے متعلق پروگرام کے فوڈ ویسٹ انڈیکس یعنی کھانے کی اشیاء ضائع کرنے کی فہرست میں یہ بتایا گیا ہے کہ دکانوں، گھروں اور رہیسٹورانٹ میں موجود 17 فیصد کھانا کوڑے دان میں جاتا ہے۔ اس میں سے 60 فیصد شرح گھروں میں ضائع کیے گئے کھانے کی ہے۔
ہر سال 923 ملین ٹن ضائع کیے جانے والے کھانے کو کم از کم چالیس ٹن کے 23 ملین ٹرکوں میں بھرا جا سکتا ہے، یہ اتنے زیادہ ٹرک ہیں کہ انھیں زمین کے گرد سات مرتبہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف تو کروڑوں ٹن کھانا ضائع ہوتا ہے ۔
اقوامِ متحدہ کے انوائرومنٹ پروگرام کے ڈائریکٹر اینگر اینڈرسن کا کہنا تھا کہ تمام ملک کھانا ضائع کرنے کے مسئلے سے نہ صرف نمٹنے کا وعدہ کریں بلکہ سنہ 2030 تک اس شرح کو آدھا کر دیا جائے، اگر ہم ماحول میں تبدیلی، آلودگی اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو حکومتوں اور شہریوں کو کھانا ضآئع کرنے کے مسئلے سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔