سٹی42: پاکستان آرمی پی ٹی آئی کے جیل میں قید اور مقدمات بھگت رہے بانی سے "مذاکرات" کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ پی ٹی آئی کے بانی اور ان کے ساتھیوں کی کئی ماہ سے چلائی جا رہی کیمپین بے ثمر ثابت ہوئی۔ یہ انکشاف انگلینڈ کے اخبار گارڈین نے جمعہ کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔
سینئر عسکری ذرائع نے "گارڈین" کو بتایا کہ پاکستانی فوج کا جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنےکا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ مین لکھا ہے کہ عمران خان ک کئی ماہ سے فوج کے ساتھ "مذاکرات" کی کوشش کر رہا تھا، گارڈین نے اس کوژش کو لے کر پاکستان آرمی کے سینئیر ذرائع سے پوچھ لیا تو انہوں نے بتایا کہ فوج کا عمران خان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین نے اپنی 15 نومبر کی اشاعت میں ایک سٹوری شائع کی ہے جس میں حقائق کے برعکس یہ بھی لکھا کہ عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں صحافیوں کے ملاقات کرنے پر پابندی ہے, "لیکن گارڈین اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے سوالات پیش کرنے میں کامیاب رہا۔"
اپنے جوابات میں، عمران خان نے کہا کہ پچھلے سال اگست میں قید کیے جانے کے بعد سے ان کا "فوج کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق نہیں" ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ وہ " ملٹری اسٹیبلشمنٹ" کے ساتھ ڈیل کرنے کو مسترد نہیں کریں گے، اس کے باوجود کہ وہ پہلے ان پر اپنی حکومت کو گرانے اور قید کروانے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ "ڈیل" کرنے کی بات کرنے کے ساتھ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ وہ "اپنے اصولوں" پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے۔
واضح رہے کہ پہلے کئی ماہ تک عمران خان نے پاکستانی فوج پر ان کی گرفتاری کا حکم دینے کا الزام لگایا پھر وہ اور ان کے ساتھی فوج پر الزام تراشی سے کسی حد تک باز آ گئے اور مختلف شخصیات یہ تاثر دینے لگیں کہ عمران خان حکومت سے تو نہیں البتہ "ملٹری اسٹیبلشمنٹ" سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی سے وابستہ بعض شخصیات نے یہ تاثر بھی دیا کہ شاید کسی سطح پر پی ٹی آئی کے بانی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان "مذاکرات" کروانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
گارڈین نے جمعہ کے روز اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کو 2018 میں فوج کی پشت پناہی سے اقتدار میں آنے میں مدد ملی، جسے طویل عرصے سے پاکستانی سیاست کے کنگ میکر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
2022 میں فوج کی قیادت سے خان کے تعلقات منقطع ہونے کے بعد انہیں اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد عمران خان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ان پر مبینہ قاتلانہ حملے میں کردار ادا کرنے اور ان کی گرفتاری میں کردار ادا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے فوج پر الزام تراشی شروع کی۔
گارڈین نے بتایا کہ عمران خان کو اب مقدمات کا سامنا ہے۔ گارڈین نے دعویٰ کیا کہ جون میں، صوابدیدی حراست سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے عمران خان کی قید کو غیر قانونی قرار دیا۔
بہر حال، جیسے جیسے ان کے خلاف مقدمات بڑھتے جا رہے ہیں، موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سابق وزیر اعظم کے بیانات نے مزید مفاہمت آمیز لہجہ اختیار کر لیا ہے۔ جولائی میں، عمران خان نے عوامی طور پر فوج کے ساتھ "مشروط" مذاکرات کرنے کی پیشکش کی۔پی ٹی آئی الزام لگاتی ہے کہ فروری میں ہونے والے انتخابات غیر جمہوری تھے اور دھاندلی سے متاثر ہوئے تھے، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے درحقیقت الیکشن جیتا تھا۔
گارڈین کی رپورٹ مین لکھا گیا ہے کہ سینئر عسکری قیادت نے بتایا کہ عمران خان پچھلے کچھ مہینوں سے فوج کے ساتھ بات چیت کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اور انہوں نے "غیر مشروط" مذاکرات کی پیشکش کی تھی کیونکہ اس نے اپنی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیل کی کوشش کی تھی۔
تاہم، سینئر فوجی شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عمران کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات میں داخل ہونے سے انکاری ہیں۔ "اس کو اپنے خلاف عدالتی مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور وہ فوج سے کسی معاہدے کی توقع نہیں کر سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ "ہر کوئی قانون کی حکمرانی پر عمل کرے، لیکن وہ اپنے لیے یہ قانون کی حکمرانی نہیں چاہتے،" ایک فوجی ذریعے نے کہا۔
گارڈین نے فوج کی قیادت کے عمران کے ساتھ مذاکرات سے واضح انکار کی اطلاع بتانے کے ساتھ لکھا کہ آئینی ترامیم کو لے کر اس ہفتے عمران خان نے 24 نومبر کو دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کے لیے "حتمی کال" جاری کی ہے۔
پچھلے مہینے، عمران کی سابق بیوی جمائما گولڈ اسمتھ نے الزام لگایا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور ان کے بیٹوں کو فون کال کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حکومت نے جواب میں بتایا کہ عمران کو اپنے باورچی کے ساتھ ایک پرتعیش "صدارتی سویٹ" میں رکھا جا رہا ہے۔