نیب ترامیم کالعدم کیس: بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

16 May, 2024 | 12:04 PM

Ansa Awais

(امانت گشکوری،عثمان خان)نیب ترامیم کیس میں  بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک پر سپریم کورٹ میں پیشی،عمران خان پیش ہوگئے۔عمران خان نے اپنا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کروا دیا ۔عمران خان نے سکائی بلیو ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا،سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس کا حکمنامہ طلب کر لیا۔

 نیب ترامیم پر حکومتوں کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ کررہا ہے۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث صاحب آپ کو سنیں گے،اگر آپ فیس لینا چاہیں تو آگاہ کیجئے گا،آپ ابھی بیٹھ جائیں آپ کو بعد میں سنتے ہیں۔

 وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا،وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواء ہے ،جولائی 2022 کو نیب ترامیم کیخلاف پہلی سماعت ہوئی،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ کیا ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست سماعت کیلئے منظور ہوئی، کل کتنی سماعتیں ہوئیں،  وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ کل 53 سماعتیں ہوئیں،زیادہ وقت درخواست گزار نے لیا۔چیف جسٹس بولے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں،مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی سن سکیں، سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس کا حکمنامہ طلب کر لیا۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ 1999 میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا، اٹارنی جنرل بولہ کہ مارشل لاء کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب دائر ہوئی؟مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022 کو دائر ہوئی،سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022کو لگا سماعت 19جولائی کو ہوئی، 2022 کا پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل کیلئے لیا۔

 اگر ایک جج اپنی رائے دے تودوبارہ کیسے بنچ میں بیٹھ سکتا ہے؟چیف جسٹس

  اٹارنی جنرل بولے کہ پشاور ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں کیس زیر التواء تھا،مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس میں زیر التوا ہونے کے باوجود کیس سنا ،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اس کیس کا آرڈر آف دی کورٹ کدھر ہے،جب ایک آرڈر آف دی کورٹ ہی نہیں تو اسے فیصلہ کیوں کہہ رہے،وکیل وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ میں پھر اسے سات ججز کی رائے کہوں گا،کیا بنچ دوبارہ تشکیل دیا گیا تھا،وکیل مخدوم علی خان بولے کہجسٹس یحیی آفریدی نے براہ راست درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سوال آئینی تشریح سے متعلق ہے،اگر ایک جج اپنی رائے دے تودوبارہ کیسے بنچ میں بیٹھ سکتا ہے؟ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا ؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا، چیف جسٹس پھر بولے کہ سوال ہے کہ آرڈر آف دی کورٹ کہاں ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے لقمہ دیا کہ الیکشن کیس میں تمام بنچ کی رائے تھی کہ 90 روز میں الیکشن ہوں،عدالتی فیصلے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہیں ہوا،جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ ہائیکورٹ میں زیر التو ہونے کے باجود کیس سننے پر ججز میں اختلاف آیا،جسٹس اطہر من اللہ نے  چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پر ہم 2 ججز نے ناقابل سماعت کردیا،ہم نے کہا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی،تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ نے جو الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اس کیخلاف انٹرا کورٹ حکم جاری نہیں ہوا ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ میرے ساتھ بنچ میں بیٹھے ہم نے تو 12 دن میں الیکشن کروا دیئے،آپ جس بنچ کی بات کررہے اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں نہیں تھا،کیا چیف جسٹس کسی بھی جج کو بنچ سے الگ کرسکتا ہے؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ہم نے آرڈر آف دی کورٹ دیا،اکیسویں ترمیم کا بھی آرڈر آف دی کورٹ تھا۔

 گزشتہ سماعت کی تفصیل یہاں پڑھئے

 وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں،ہائیکورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی،نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا،
ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے توجہ دلائی کہ سر عدالتی کاروائی براہ راست نشر نہیں ہورہی،چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پر بیٹھنے کی ہدایت کردی ۔
 

مزیدخبریں