سماجی نظم و ضبط ٹوٹا تو خانہ جنگی مقدر ہو گی

از:اسلم اعوان

16 Mar, 2025 | 02:40 PM

خیبر پختونخوا کے انتہائی جنوب میں پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پہ واقع ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے گائوں بگوانی شمالی میں پنچائیت کی طرف سے 12سالہ بچی کو ’’ونی‘‘ کرنے کے دکھ میں بچی کے باپ ، عادل حجام ، کی خودکشی کا واقعہ جہاں ہمارے نظام عدل کی زبوں حالی کا نوحہ تھا وہاں یہی دردناک سانحہ مائیکرو لیول پر بڑھتے ہوئے سماجی شعورکا انڈیکیٹر بھی واقع ہوا ، ’’ ونی‘‘ کی جانے والی بارہ سالہ بچی کے والد عادل حجام نے خودکشی سے قبل ریکارڈ کرائے گئے اپنے آڈیو پیغام میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ’’ شاید یہ قربانی (خودکشی) میری بیٹی کو ’’ونی‘‘ ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن جائے‘‘مجبور مگر غیرت مند باپ کے الوالعزمی پہ مبنی یہ وہ الفاظ تھے جو اس المیہ کو پُرشکوہ بنا گئے ، جس نے اُن  پیش پاء افتادہ بستیوں میں، جہاں غیرت کے نام پہ بچیوں کے قتل اور بڑے بڑے سورماوں کی جانیں بچانے کے لئے معصوم بیٹوں کو ’’ ونی‘‘(سوارہ) کرنا معمول سمجھا جاتا ہے ،

 وہاں متوفی عادل حجام کا بیان ایک نئے زاویہ نگاہ کی عکاسی کر گیا ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد رفتہ رفتہ یہاں گورنمنٹ کی رٹ کمزور اور قانون کی حکمرانی کا تصور دھندلاتا گیا  جس کے نتیجہ میں معاشرے میں پائی جانے والی روایتی قباحتیں زیادہ پیچیدگیاں لیکر نمودار ہونے لگیں خاص کر 1979 میں شروع ہونے والی افغان جنگووں کے دوران عالمی سیاست کے تقاضوں کے پیش نظر فوجی آمروں کے اقتدار کی مصلحتوں نے ریاستی ڈھانچے اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ غیر مقبول فوجی حکمران ریاستی وجود کو معاشرتی عوامل کے تال میل میں متوازن رکھنے کی بجائے اُسے طاقت کی پیراڈائم میں مقید کرنے کی کوشش میں اجتماعی زندگی کی بقاء کے فطری محرکات کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اگرچہ ہر عمل ، وراثت اور ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن اہل جبر نہایت انکساری کے ساتھ اس محاسبہ میں اپنے وجود کو شمار نہیں کرتے اور وہ یہی فرض کر لیتے ہیں کہ زندگی خارجی طاقتوں کا منعفل نتیجہ ہے۔

 لاریب، ارسطو نے سچ کہا تھا کہ سیاست کا فرض معاشرے کو ریگولیت کرکے ریاست کی صورت میں منظم کرنا ہوتا ہے'' گویا، ریاست کا وجود معاشرتی نظم و ضبط پہ کھڑا ہوتا ہے لیکن ہمارے فوجی آمر معاشروں کو تقسیم کرنے میں اپنی بقاء تلاش کرنے کے جنون میں ریاست کے وجود کو انتشار کی طرف دھکیلنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے ، فوجی آمروں کی اِنہی مصلحتوں کی وجہ سے یہاں نسلی ، لسانی اور مذہبی تقسیم رفتہ رفتہ سماجی عوامل کو انتشار میں ڈھال کر ریاستی ڈھانچہ کو دگرگوں کرنے کا سبب بنی ، معاشرے کو منقسم رکھنے کے اِسی رجحان کی آخری ٹھوکر جنرل مشرف کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کی جسارت نے لگائی  ، جس میں سول بیوروکریسی کا کشن نکال کر معاشرے کو دو فورسیز یعنی فوج  اور پولیس کے سپرد کرکے راتوں رات اُس اجتماعی نظام کو منہدم کر دیا گیا جسے انگریزوں نے دو سو سالوں کے تجربات کے نتیجہ میں متشکل کیا تھا ۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن عالمی طاقتوں نے جنرل مشرف کو اس نئے نظام کے نفاذ کی راہ دیکھائی، وہ اس پیش دستی کے مضمرات سے پوری طرح آگاہ ہوں گے ، چنانچہ پچھلی تین دہائیوں میں معاشرے میں پروآن چڑھنے والی نسلی، لسانی اور مذہبی تقسیم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی زرخیز بدنظمی کو ہموار بنانے کے لئے حکمرانی کے آرٹ کو استعمال کرنے کی بجائے قانونی تشدد کا سہارا لیا گیا ، جس کے ردعمل میں ہر طرف شورش کی آگ بھڑک اٹھی مستزاد یہ کہ پچھلی ڈیڑھ صدی سے گریٹ گیم وارفیئر سے منسلک اور انسانی تاریخ کی دو طویل ترین جنگووں کا لانچنگ پیڈ رہنے والے قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے تحت رائج اجتماعی ذمہ داری کے اُن قوانین کی بساط لپیٹ کر قبائلیت کے روایتی نظم و ضبط کو توڑ دیا گیا جو کہ مسلح قبائل کو ریگولیٹ کرنے کا موثر اور آزمودہ قانونی میکانزم  تھا لہذا دیکھتے ہی دیکھتے بندوبستی علاقوں میں معاشرتی انتشار کے بعد قبائیلی پٹی میں بھی کبھی نہ تھمنے والی بدنظمی نے پنجے گاڑھ لئے ۔ تشدد کی آبیاری کرنے والی عالمی طاقتوں اور دشمن ایجنسیوں کو معلوم ہے کہ انسانی آبادیوں میں طویل عرصہ تک جاری رہنے والی فوجی کاروائیاں تشدد کی آگ کو بھڑکانے میں جلتی پہ تیل کا کام کرتی ہیں اور یہ کہ کسی بھی معاشرے کے تحفظ کی آخری فصیل پولیس ہوتی ہے جہاں پولیس فورس سوسائٹی کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام ہو جائے  وہاں خانہ جنگیوں کے کبھی رکنے والے سلاسل بھڑک اٹھتے ہیں ، شاید اسی لئے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میںفوجی آپریشن شروع ہوتے ہی ہمیں پولیس پہ حملے بڑھتے دیکھائی دیئے  ، آج ہماری پولیس جس قسم کے بیرونی حملوں اور داخلی بحران میں الجھی ہوئی ہے وہ زیادہ دیر تک معاشرے پہ اپنی گرفت کو برقرار نہیں رکھ پائے گی ، جس کے بعد ہولناک خانہ جنگی ہماری منتظر کھڑی ہے  ۔ علی ہذالقیاس ، انسانی تاریخ میں ہر مذہب اور ہر فلاحی نظریہ ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل کے ذریعے ریاستی نظم و ضبط کو فروغ دینے میں نوع انسانی کی بقاء تلاش کرتا رہا اور  ہر ریاست لامحالہ سماجی انصاف کے گداز عمل کو معاشرتی ارتقاء کا وسیلہ بناتی رہی  ، جس کے مطابق معاشرے میں وسائل، مواقع اور مراعات کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے علاوہ سماجی مقام و مراتب میں عدم مساوات کو دور کرکے تمام افراد کو برابری کا استحقاق اور فلاح و بہبود کے یکساں مواقعہ فراہم کرنے والا نظام پروآن چڑھا جس میں ہر ایک کو انصاف تک رسائی اور باعزت زندگی گزارنے کے دروازے کھلے ملتے گئے ، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ کمزور اور ضرورت مند ہیں ۔

  ہم دیکھتے ہیں کہ یوروپ کی جدید فلاحی ریاستوں  میں  ہر شہری کے لئے قومی وسائل تک رسائی، سماجی مساوات، سیاسی عمل میں شرکت ، تنوع  اور بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کے دروازے  کھول کر صحت مند  معاشرے برپا کئے گئے ۔ سماجی انصاف ایسا اخلاقی اور فلسفیانہ نظریہ ہے جس میں قانون اور قانون کے ثالثوں کے ذریعے لوگوں کے ساتھ غیر جانبداری، منصفانہ ، مناسب اور معقول سلوک کیا جاتا ہے ، تمام قوانین اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہوتے ہیں کہ کسی دوسرے کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور یہ کہ جہاں نقصان کا الزام لگایا گیا ہو، وہاں  تدارک کی کارروائی کے دوران الزام لگانے اور ملزم دونوں کو اپنے دفاع کا یکساں حق فراہم کیا جائے ، یہی وہ بنیادی اصول ہیں جن میں، احترام انسانیت، خاندان کا فروغ ، فرد کا حق ملکیت ، اجتماعی بھلائی کے طور پر پیدواری عمل میں حصہ لینے والے مزدور کی حق رسی ، عزت و مال کے تحفظ اور جینے کے لئے پُرامن ماحول کی فراہمی سمیت غریبوں کی دیکھ بھال شامل ہیں  ۔ ایک منظم ریاستی وجود افراد کے علاوہ مختلف طبقات کی حفاظت کے لئے درکار ضروری اسباب بھی مہیا کرتا ہے ۔ سماجی عمل کو ریگولیٹ کرنے والے خودکار ضوابط  محض پیچیدہ قانونی نظام نہیں ہوتے بلکہ یہ صرف ایک سنہری اصول پہ قائم رہتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاو کرو جیسا کہ آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں ۔

مزیدخبریں