سٹی42: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدعنوانی اور مس کنڈکٹ کے مرتکب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب یقینی بنانے کے ضمن میں اہم حکومتی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے خلاف مس کنڈکٹ یا بدعنوانی کی شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع ہو چکی ہو تو اس جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفی ک دے دینے سے یہ کارروائی رکے گی نہیں۔ الزام علیہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفیٰ کے بعد بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی ہوسکتی ہے۔
ریٹائرڈ اور مستعفی ججز کیخلاف کاروائی کیلئے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل کا تفصیلی فیصلہ پانچ صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل کا تفصیلی فیصلہ جمعہ کے روز جاری کیا ۔
تفیصلی فیصلہ میں قانونی نکات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ کسی جج کیخلاف جوڈیشل کونسل کاروائی شروع کر چکی ہو تو اس کی ریٹائرمنٹ یا استعفیٰ کے بعد بھی اس کے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں کاروائی چلتی رہے گی۔جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفی سے جوڈیشل کونسل کی جاری کاروائی ازخود ختم نہیں ہوگی۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کی تھی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے ریٹائرڈ ججز کیخلاف کاروائی روکنے کا فیصلہ دیا تھا۔
انٹرا کورٹ اپیل کے فیصلہ مین سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ریٹائرڈ ججز کیخلاف کاروائی سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل جزوی طور پر منظور کی جاتی ہے۔جن ججز کیخلاف شکایات پر مرکزی کیس سنا گیا تھا سپریم کورٹ اس کیس کے میرٹس پر نہیں جائے گی۔
جمعہ کے روز جاری ہونے والے تفصیلی فیصلہ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ان شکایات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جن کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ تک سپریم وڈیشل کونسل کے کسی اجلاس مین زیر غور ہی نہیں آنے دیا تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد قانون کے مطابق ان کو غیر مؤثر قرار دے کر ڈسپوز آف کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں تحریر ہے کہ ثاقب نثار کےخلاف شکایت اس وقت دائر ہوئیں جب وہ چیف جسٹس تھے۔ بدقسمتی سے شکایات ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ تک جوڈیشل کونسل کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔ ثاقب نثار کیخلاف شکایات ریٹائرمنٹ کے بعد کونسل کے سامنے آئیں تو غیر موثر ہونے پر خارج ہوگئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا اضافی نوٹ
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں سخت الفاظ میں بدعنوانی میں ملوث ججوں کی مذمت کی اور اس امر پر زور دیا کہ جو شخص جج کے لئے قرر معیار پر پورا نہیں اترتا اسے جج کے منصب پر نہیں ہونا چاہئے۔
جسٹا جمال مندوخیل نے لکھا میں جسٹس سمین الدین خان کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔عدلیہ ریاست کا ایک بنیادی ستون ہے۔عدالتی فرائض کی ادائیگی اور انصاف کی فراہمی کیلئے آزاد، غیر جانبدار اور مضبوط عدلیہ ناگزیر ہے۔عدلیہ کی آزادی کیلئے ججز کے عدالتی کام کو تحفظ درکار ہوتا ہے۔ایک جج کو بھروسہ مند اور ایماندار ہونا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے لکھا کہ اپنے وقار کے تحفظ کیلئے جج کو اخلاقی اور پیشہ ورانہ طور پر اعلی اقدار کا حامل ہونا چاہیے۔اگر ایک شخص خود پر یہ معیار لاگو نہیں کر سکتا تو اسے جج کے منصب پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
جسٹس مندوخیل نے لکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا جج تین قسم کے ہوتے ہیں۔تین قسم کے ججز میں سے ایک جنت میں جائے گا جبکہ دو کو جہنم نصیب ہوگی۔ جنت میں وہ جج جائے گا جو جانتا ہے کیا صحیح ہے اور اسی لحاظ سے فیصلہ دیتا ہے۔ وہ شخص جو جانتا ہے کہ سچ کیا ہے لیکن ظالمانہ فیصلہ دیتا ہے وہ جہنم میں جائے گا۔وہ جج جو غافل ہوکر فیصلہ دیتا ہے وہ بھی جہنم میں جائے گا۔