( ملک اشرف ) لاہور ہائیکورٹ میں پٹرول کی قلت کیخلاف درخواستوں پر سماعت، چیف جسٹس ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے ریمارکس دیئے کہ یوں لگتاہے معاون خصوصی وزارت پٹرولیم چلا رہے ہیں اور بحران کے بھی وہی ذمہ دار ہیں۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کیس پر سماعت کی۔ چیئر پرسن اوگرا عظمی عادل ، اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید، ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم مومن آغا، عدالتی معاون ملک اویس خالد سمیت دیگر پیش ہوئے۔ پٹرول بحران پر وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کے میٹنگ منٹس پیش کئے گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے جس نے میٹنگ منٹس بنائے اس نے وزیراعظم کو خوش کرنے کیلئے بنائے ہیں۔ میٹنگ منٹس وزیراعظم کے نام سے بنائے گئے، اس بڑے پیمانے پر ایسی غلطی کیام عنی رکھتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایک طرف وزیراعظم کا معاون خصوصی ہے اور دوسری طرف پوری کابینہ ہے۔
میٹنگ منٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم بھی عوام کا سوچ رہےہیں۔ سپیشل اسسٹنٹ نے آخر میں بحران کی اصل وجہ سے توجہ ہٹا دی۔ الزام لگتا ہے حکومت غیر منتخب لوگ چلا رہے ہیں۔ جو منتخب ہوتا ہے اسے عوام میں جانا پڑتا ہے، وزیر بھی ہو تو عوام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے کہا کہ سپیشل اسسٹنٹ نے یہ نہیں بتایا کی پٹرول کی سپلائی کم ہے، وہ کہتے ہیں کہ افراتفری میں لوگوں نے زیادہ پٹرول خریدا جس کی وجہ سے پٹرول کا بحران پیدا ہوا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یوں لگتا ہے کہ معاون خصوصی وزارت چلارہے ہیں اور بحران کے بھی وہی ذمہ دار ہیں۔
چیف جسٹس نے دورانِ سماعت استفسار کیا کہ اگر حکومت کمیشن بناتی ہے تو کب تک رپورٹ بنالے گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت کمیشن بنائے گی اور چھ سے آٹھ ہفتےمیں رپورٹ بنالے گی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ جلد از جلد آنی چاہیئے، اگر کمیشن نہیں بنتا تو تمام حکومتی ادارے درخواستوں پرجواب داخل کریں۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیاکہ اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ چیئرپرسن اوگرا نے کہا کہ وہ کل ریٹائر ہورہی ہیں، سب ریکارڈ دے دیا ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ سب حکومت کی غلطی ہے لیکن سب اوگر اپر ڈالنا بھی درست نہیں۔
عدالت نے پارلیمانی کمیٹی بنانے اور اسکی رپورٹ پیش کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو 6 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔