ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

الحمدللہ! غزہ میں جنگ بندی معاہدہ ہو گیا، اتوار کی صبح سے جنگ بند ہو گی

Gaza ceasefire, Gazawar to stop on Sunday, city42
کیپشن: غزہ میں چار سو ساٹھ روز کی جنگ کے دوران کھنڈر بنے ایک رہائشی علاقہ میں بچے  تباہ شدہ عمارت کے ملبہ پر بیٹھے ہیں۔  حماس کے سات اکتوبر 2023 کی صبح اسرائیل پر حملے اور ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنانے سے شروع ہونے والی جنگ نے بہت سے بچوں سے تو زندگیاں ہی چھین لیں، جو زندہ ہیں وہ نارمل انسانوں کے بچوں کی طرح نارمل حالات میں نہیں ہیں۔ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: قطر کے وزیراعظم  محمد بن عبدالرحمان بن جاسم الثانی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ ہو گیا ہے، جنگ بندی اتوار 19 جنوری کی صبح سے شروع ہو گی۔  اسرائیل اور حماس نے اعلان کیا ہے کہ ہماری غزہ میں جنگ بندی اور  یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی واپسی کے لئے ڈیل ہو گئی ہے۔ 

فلسطینی گروپ حماس نے غزہ کو تباہ کرنے  کے بعد  460 دن سے زائد  قید رکھے ہوئے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے عوض  اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ 

 
رپورٹ کردہ معاہدے میں ایک عارضی جنگ بندی شامل ہے جو کہ فی الحال غزہ پر ہونے والی تباہی کو ختم کرے گی، نیز غزہ میں قید اسیروں اور اسرائیل کے زیر حراست بہت سے قیدیوں کی رہائی بھی معاہدہ کا حصہ ہے۔

یہ معاہدہ بالآخر ب 460 روز سے حماس کے مسلح کارکنوں کی قید میں موجود اسرائیلی خواتین سمیت 33 یرغمالیوں کو ان کے گھروں کو واپس بھجوائے گا اور بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا – حالانکہ  460 روز کی جنگ کے بعد، بہت سے گھر اب باقی نہیں رہے۔ اور حماس کی ظالمانہ قید  میں 460 روز گزارنے کے بعد رہا ہونے کے منتظر یرغمالی بھی طویل عرصہ تک نارمل انسانوں جیسی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے۔

 معاہدے کا متن ابھی تک باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا گیا ہے، لیکن  کئی نیوز آؤٹ لیٹس، رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کی بنیاد پر ہم اب تک یہی جانتے ہیں۔

Caption    پندرہ جنوری کو ہزاروں فلسطینیوں نے جشن منایا جب یہ خبر پھیلی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کا مقصد فلسطینی سرزمین میں 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کو روکنا ہے [بشار طالب/اے ایف پی]

سیز فائر معاہدہ کا پہلا مرحلہ/ ابتدائی مرحلہ چھ ہفتے تک جاری رہے گا.  اور اس میں محدود قیدیوں کا تبادلہ، غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کا جزوی انخلا اور انکلیو میں امداد کا اضافہ شامل ہوگا۔

7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی قیادت میں کیے گئے حملے کے دوران 33 اسرائیلی اسیر، جن میں خواتین، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے شہری شامل ہیں، رہا کیے جائیں گے۔

 بدلے میں اسرائیل اس مرحلے کے دوران حماس کے کارکن اور حامی تقریباً 2000 قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے 250 قیدی بھی شامل ہیں۔ رہا کیے جانے والے حماس کے کارکنوں میں 1000 کے قریب ایسے ہیں جنہیں 7 اکتوبر کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔

اسیروں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ، اسرائیل غزہ کے آبادی کے مراکز سے غزہ کی اسرائیل کے ساتھ سرحد کے اندر 700 میٹر سے آگے واقع علاقوں میں اپنی فوجیں ہٹا لے گا۔ تاہم، اس سے نیٹزارم کوریڈور خارج ہو سکتا ہے۔ یہ عسکری نوعیت کی پٹی ہے جو غزہ کو  دو  حصوں میں تقسیم  کرتی ہے اور اس کے ساتھ نقل و حرکت کو کنٹرول کرتی ہے – نیٹزارم سے انخلا مراحل میں ہونے کی توقع ہے۔

Caption  اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی اطلاع کے بعد تل ابیب میں جنگ بندی معاہدہ جلد کروانے کے لئے 15 جنوری 2025 کو  احتجاج میں شریک مظاہرین ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں۔ تل ابیب اور اسرائیل کے دوسرے شہروں میں، غزہ جنگ کے دوران دنیا  کے کسی ایک ملک میں غالباً سب سے زیادہ احتجاجی مظاہرے کر کے جنگ بندی کا مطالبہ دہرایا گیا۔ (جیک گوز/ اے ایف پی)

اسرائیل انکلیو کے محصور شمال میں شہریوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گا، جہاں امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ قحط جیسی صورتحال ہے، اور انکلیو میں  روزانہ 600 ٹرک تک امداد ک کی آمد میں  اضافے کی اجازت دے گا –

 اسرائیل زخمی فلسطینیوں کو علاج کے لیے غزہ کی پٹی سے نکلنے کی بھی اجازت دے گا اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد شروع ہونے کے سات دن بعد مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھول دے گا۔

 اسرائیلی افواج مصر اور غزہ کے درمیان سرحدی علاقے فلاڈیلفی کوریڈور میں اپنی موجودگی کو کم کر دیں گی اور پھر بعد کے مراحل میں مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی۔

پہلے مرحلے کے بعد کیا ہوتا ہے۔  دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تفصیلات

 اگرچہ اصولی طور پر اس پر اتفاق کیا گیا ہے، پہلے مرحلے کے دوران بات چیت کی جائے گی۔  تنقیدی طور پر، اسرائیل نے اصرار کیا ہے کہ پہلا مرحلہ مکمل ہونے اور اس کے شہری قیدیوں کی واپسی کے بعد اس کے حملوں کو دوبارہ شروع کرنے کی کوئی تحریری ضمانت نہیں دی جائے گی۔ تاہم، ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی کے حوالے سے مصری ذرائع کے مطابق، مذاکرات میں شامل تینوں ثالثوں مصر، قطر اور امریکہ نے حماس کو زبانی ضمانت دی ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور یہ تینوں ایک معاہدے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔

ابتدائی چھ ہفتے کی ونڈو کے گزرنے سے پہلے دوسرے اور تیسرے مرحلے کو نافذ کیا جائے گا۔

 دوسرے مرحلے کا کیا منصوبہ ہے،  اگر اسرائیل یہ طے کرتا ہے کہ دوسرے مرحلے کے لیے شرائط پوری ہو گئی ہیں، تو حماس اسرائیلی جیلوں  میں قید مزید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں باقی تمام قیدیوں، زیادہ تر مرد فوجیوں کو رہا کر دے گی۔ اس کے علاوہ، موجودہ دستاویز کے مطابق، اسرائیل غزہ سے اپنے "مکمل انخلاء" کا آغاز کرے گا۔

 تاہم الجزیرہ نیوز نے کہا ہے کہ یہ شرائط، جن پر اسرائیلی کابینہ کی جانب سے ووٹنگ ہونا باقی ہے، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتیاہو کی کابینہ کے  انتہائی دائیں بازو کے ارکان کے خیالات اور وعدوں سے متصادم ہیں، جن پر وہ حمایت کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ نیتن یاہو  نے خود ماضی میں بارہا غزہ میں حماس کی موجودگی کو  ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔

 تیسرے مرحلے کی تفصیلات سب سے زیادہ گرے ایریا ہیں۔ یہ  ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ مسودے کے مطابق، اگر دوسرے مرحلے کی شرائط کو پورا کیا جائے تو تیسرے مرحلہ میں بین الاقوامی نگرانی میں تین سے پانچ سالہ تعمیر نو کے منصوبے کے بدلے میں باقی ماندہ اسیروں کی لاشوں کی واپسی ہو گی۔ 

 فی الحال اس بات پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کا انتظام کون کرے گا۔ امریکہ نے ایسا کرنے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے ایک اصلاحی ورژن پر زور دیا ہے۔ منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ جنگ کے بعد کی تعمیر نو اور گورننس فلسطینی اتھارٹی کو "بین الاقوامی شراکت داروں" کو مدعو کرتی ہے کہ وہ اہم خدمات کو چلانے اور علاقے کی نگرانی کے لیے عبوری گورننگ اتھارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل میں ایک تقریر میں کہا، دیگر شراکت دار، خاص طور پر عرب ریاستیں، مختصر مدت میں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے افواج فراہم کریں گی۔

 اس طرح کے منصوبے کے کام کرنے کے لیے، اسے سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی، جنہوں نے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں اس اسکیم کی حمایت کریں گے جب فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی راستہ سامنے ہو۔ اس کے باوجود یہ مرحلہ اسرائیلی قانون سازوں کے لیے تنازعہ کا ایک اور نکتہ فراہم کرتا ہے۔

یہ اسرائیلی قانون سازوں کے لیے تنازعہ کا ایک اور نکتہ فراہم کرتا ہے، حالانکہ اسرائیل نے 1990 کی دہائی کے اوسلو معاہدے میں دو ریاستی حل پر اتفاق کیا تھا۔

اسرائیل نے ابھی تک غزہ میں حکومت کی کوئی متبادل شکل تجویز نہیں کی ہے۔

 سات اکتوبر کا حملہ اور 460 روز کی جنگ؛ فلسطینیوں کا ناقابلِ تلافی نقصان

سات اکتوبر 2023  کی صبح حماس اور اسلامک جہاد کے ہزاروں مسلح  کارکنوں نے اسرائیل کی سرحدوں کے اندر گھس کر ابتدا مین چند فوجی چوکیوں پر حملے کئے، اس کے بعد بیک وقت کئی آبادیوں میں گھس گئے۔ ایک صحرا میں ہو رہے میوزک کنسرٹ اور کئی آبادیوں میں گھس کر سامنے آنے والے سینکڑوں لوگوں کو ان کی عمر اور جینڈر کی تفریق کئے  بغیر موت کے گھاٹ اتارا اور چند گھنٹے میں بارہ سو افراد کو قتل کرنے کے دوران دو سو پچاس سے زیادہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر کے قیدی بنا لیا ۔ قیدیوں کو اپنے ساتھ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر لاد کر غزہ لے گئے۔

 اس عمل کے مکمل ہونے میں چند گھنٹے لگے تھے، اس کے چند ہی گھنٹے بعد اسرائیل نے غزہ میں حماس کے تمام معلوم ٹھکانوں اور اس کے معلوم کارکنوں کے گھروں پر خوفناک بمباری شروع کر دی تھی۔ چند گھنٹے کے ایڈونچر کے ردعمل میں شروع ہونے والی جنگ فلسطین کی تاریخ کی سب سے زیادہ خونریز جنگ ثابت ہوئی جس میں 460 دن کے دوران چھیالس ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے، ہزاروں گھر ملبہ کا ڈھر بنے، لاکھوں فلسطینیوں کو ایک سے زائد بار نقل مکانی کرنا پڑی، لاکھوں لوگوں کو پناہ گاہیں دستیاب نہ ہونے کے سبب سکولوں میں عارضی شیلٹرز میں رہنا پڑا۔

جنگ کے آغاز ہی میں اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا کہ غزہ میں ہسپتالوں  کے نیچے حماس کی زیر زمین پناہ گاہیں ہیں۔حماس نے سرنگوں کا وسیع نیٹ ورک ہسپتالوں اور سکولوں کی آڑ میں استوار کیا  ہے۔ اپنے اس دعوے کو لے کر اسرائیل نے غزہ مین تقریباً تمام ہسپتالوں کو بمباری سے لے کر ٹینکوں کی گولہ باری تک کا نشانہ بنایا اور کچھ ہی مہینوں میں کوئی بھی ہسپتال انسانوں کی علاجگاہ کا کام دینے کے قابل نہ رہا۔ سینکڑوں بچے، عورتیں، زخمی علاج نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں گئے، جو مرنے سے بچ گئے انہیں  زخموں اور امراض کے ہاتھوں ناقابلِ بیان اذیتیں جھیلنا پڑیں۔ 

حماس نے سات اکتوبر کو کن مقاصد کے حصول کے لئے اسرائیل میں گھس کر قتلِ عام کیا تھا اور سینکڑوں مردوں، عورتوں کو بچوں کے ساتھ اغوا کیا تھا، یہ آج تک سامنے نہیں آ سکا۔

دوسری طرف اسرائیل کی اتحادی حکومت میں شامل زیادہ دائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں نے حماس کے قتلِ عام کے جواب میں اس سے  کہیں زیادہ طاقت کا استعمال کیا، ابتدا میں غزہ پر فضائی حملوں اور زمینی قبضہ کا مقصد حماس کے مجرموں  کو  انجام تک پہنچانا اور اسرائیل کے یرغمالی قیدیوں کو واپس حاصل کرنا تھا، پھر حماس کے زیر زمین پناہ گاہوں اور اسلحے کے ذخائر کے نیٹ ورک کا خاتمہ بھی مقاصد میں شامل ہو گیا۔

حماس کے کارکن غزہ کی سویلین آبادی میں رہ رہے تھے، ان کے تمام ٹھکانے سویلین آبادی مین تھے اور بیشتر ہسپتالوں اور سکولوں سے متصل اور بعض اوقات ان کے نیچے زیر زمین بنکرز اور سرنگوں کی شکل میں۔ اس جنگ میں طے شدہ بین الاقوامی اصول  غیر مؤثر ہو گئے اور   غیر معمولی صورتحال یہ درپیش رہی کہ جنگ جو اور دہشتگرد سویلینز میں چھپے  رہے۔

 بڑے پیمانہ پر نقل مکانی اس لئے ہوئی کہ اسرائیل حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لئے سویلینز کو علاقہ خالی کرنے کے لئے کہہ رہا تھا، جب علاقے خالی ہوئے تو حماس کے کارکن بھی سویلینز کے ساتھ ہی دوسری علاقوں میں نقل مکانی کر چکے تھے۔

اسرائیلی فوج نے خالی ہو چکے غزہ سٹی میں سرنگوں اور بنکرز کا پتہ چلانے کے لئے بڑے پیمانہ پر کوششیں کیں لیکن عملاً اسی قدر کامیابی حاصل کر سکا کہ  اس کے بیشتر یرغمالی اب بھی نامعلوم سرنگوں میں ہی قید ہیں جن تک وہ کبھی نہیں پہنچ پایا۔

جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل اب تک 46,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے جن میں سے نصف کے قریب کے متعلق اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے کارکن تھے۔ باقی عام فلسطینی جن کا سات اکتوبر کے حملے اور حماس کی جنگ میں کوئی عملی کردار نہیں تھا صرف فلسین کے اس بدقسمت انکلیو میں موجود ہونے کے سبب مارے گئے۔