شیخ رشید کی سیاست ختم ، بشریٰ بی بی کا کشف اور گیٹ نمبر 4

از عامر رضا خان

16 Dec, 2024 | 12:15 PM

پاکستانی سیاست میں کئی ایک کردار ایسے ہیں جنہیں سیاست کی سویٹ ڈش یا مسخرہ کہا جاتا ہے ان سیاستدانوں کی مثال اُن طفیلی کیڑوں مکوڑوں میں سے دی جاسکتی ہے جو بڑے جانوروں کے شکار میں سے بچ گل سر جانے والے گوشت کو نوچنا اور کھانا اپنی بقا سمجھتے ہیں ایسے ہی کرداروں میں ایک کردار راولپنڈی کے خود ساختہ فرزند رشید بٹ المعروف شیخ رشید کا بھی ہے یہ انکشاف تو جاوید ہاشمی نے، 30 ستمبر 2014 کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا, انہوں نے دعویٰ کیا کہ شیخ رشید دراصل "رشید بٹ" ہیں لیکن وہ اپنے خاندانی پس منظر کو چھپانے کے لیے "شیخ" کا لاحقہ استعمال کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے مزید کہا کہ شیخ رشید کی والدہ بھی انہیں "رشید بٹ" کہہ کر بلاتی تھیں۔ اس بیان پر شیخ رشید نے سخت ردعمل دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اور ان کے آبا و اجداد ہمیشہ "شیخ" رہے ہیں، اور جاوید ہاشمی کے بیانات کو بے بنیاد قرار دیا۔

شیخ رشید احمد نے طلبہ سیاست کے دوران ترقی پسند نظریات رکھنے والے طلبہ کی تنظیم  نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن سے سیاست کا آغاز کیا انہوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت وہ گورنمنٹ پولی ٹیکنیک کالج میں طلبہ یونین کے نائب صدر تھے اور بعد میں طلبہ ایکشن کمیٹی کا حصہ بھی بنے، جو ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک کی قیادت کر رہی تھی۔
لیکن پھر ضیا دور میں وہ نواز شریف کے قریب لائے گئے، جی ہاں گیٹ نمبر 4 سے ہی انہیں نواز شریف کے پہلو میں بٹھایا گیا (شیخ رشید احمد نے بارہا اس بات کا اقرار بھی کیا کہ اُن سمیت بہت سے سیاستدان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں ) شیخ رشید نے اپنی سیاسی زندگی میں مختلف جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور متعدد وزارتوں پر خدمات انجام دیں اور نواز شریف کے قریبی ساتھی رہے۔ مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) سے اختلافات کے بعد وہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ 2008 میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت "عوامی مسلم لیگ" قائم کی اور 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیا۔

شیخ رشید نے 1991 میں نواز شریف کی کابینہ میں پہلی بار وزیر صنعت اور وزیر ثقافت کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1997 سے 1999 کے دوران وہ کھیل، سیاحت اور امور نوجوانان کی وزارتوں کے انچارج رہے۔ مشرف دور میں، 2002 سے 2007 تک، انہوں نے ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر اطلاعات اور وزیر ریلوے کی حیثیت سے کام کیا۔ عمران خان کی حکومت میں 2018 سے 2021 کے دوران وہ پہلے وزیر ریلوے اور بعد میں وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز رہے۔ شیخ رشید کل 15 مرتبہ مختلف وزارتوں کے قلمدان حاصل کر چکے ہیں، جو ان کی سیاسی زندگی میں ایک نمایاں سنگ میل ہے۔
شیخ رشید، اپنی سیاسی پیش گوئیوں کے حوالے سے مشہور ہیں، لیکن ان کی کئی پیش گوئیاں حقیقت کے برعکس ثابت ہوئیں۔ 2022 میں انہوں نے کہا تھا کہ جولائی میں حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا، لیکن یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا، اور حکومت قائم رہی۔ اسی طرح انہوں نے عید سے پہلے کسی بڑے معجزے کی پیش گوئی کی، جو کبھی حقیقت نہ بن سکی۔ وہ بارہا 24 گھنٹوں یا چند دنوں میں سیاسی تبدیلیوں کی بات کرتے رہے، مگر ان کے یہ بیانات بھی محض الفاظ ہی رہے۔ کورونا وائرس کے دوران ان کے بیانات اور پیش گوئیاں، جیسے وبا کے اثرات یا خاتمے کے متعلق، غیر معتبر ثابت ہوئیں۔ ان کی ان ناکام پیش گوئیوں کی وجہ سے ناقدین انہیں غیرسنجیدہ قرار دیتے ہیں اور ان کے بیانات کو اکثر "سیاسی تفریح" کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
اب انہوں ایک مرتبہ پھر ایسی پیش گوائیاں شروع کردیں ہیں جنہین سیاسی "اول فول " بکنا ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ جب سے ان پر اور بشریٰ بی بی پر کشف کا وہ طلسماتی دروازہ جسے وہ " گیٹ نمبر 4" قرار دیتے ہیں اُن کی مانگ اور پیش گوئیوں کی حقیقت کم ہو گئی ہے اب اُن کا تازہ بیان پڑھیے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ،اچھی بات ہے مذاکرات کی انہوں نے ایک کمیٹی بنائی ہےنکلنا کچھ نہیں کیونکہ قبر ایک اور بندے دو ہیں ایک نے اندر جانا ہے مذاکرات بہت اچھی چیز ہے دنیا میں جنگ کے بعد بھی مذاکرات ہوتے ہیں اگر مذاکرات سے کچھ نہ نکلا تو پھر جوڈو کراٹے اور بنکاک کے شعلے ہیں 26 تاریخ ایک خوفناک دہشت ناک ظلم و ستم کا دن تھا جتنی مذمت کی جائے کم ہے پانی پی ٹی آئی سے لمبی ملاقات ہوئی باہر آ کر میں نے کہا کہ شارٹ ہی رکھوں تو بہتر ہے،بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اور اپ ایک ہیں اور ہمارا مقصد 11 ہے جو بہتری کا نمبر ہے،بہتری کے حالات نکلنے چاہیے حالات سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں، پہلے ہی کہا تھا کہ 30 دسمبر تک عدم استحکام ہو گا، (ایسی پیش گوئی وہ مئی میں 30 جون کے حوالے سے بھی کر چکے ہیں ) خونی 26نومبر گزری ہے،سعودی عرب سے آیا ہوں ہر بندہ کہتا ہے کہ خدا پاکستان کو محفوظ رکھے، میں مذاکرات کا حامی تھا اور حامی ہوں میرا صرف ایک  آدمی سے تعلق  وہ بانی پی ٹی آئی ہیں میں باقی کسی کو نہیں جانتا، جی ہاں کسی کو نہیں جانتے لیکن 11 کا نمبر کیوں بولا یہ بھی ایک گہرا راز ہے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ 2011 ہی عمران خان کی سیاست کے عروج کا سال ہے جسے وہ اپنے لیے لکی نمبر سمجھتے ہیں اور اسی حمام بازگشت میں گھوم رہے ہیں جہاں انہیں پھر سے یہ دور دیکھنے کو ملے لیکن حمام باز گشت والے قصے میں تو پگلا آدمی صرف گھومتا رہا یہ کہہ کر کہ ایک بار دیکھا ہے بار بار دیکھنے کی تمنا ہے اور اسی تمنا کو دل میں لیے تاریخ کے اوراق میں گُم ہوگیا یہی کچھ شیخ رشید ، پنکی پیرنی اور عمران خان کا انجام نظر آرہا ہے لیکن غیب کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے کسی اور کے نہیں ۔

مزیدخبریں