(عامررضا خان ) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر ہیں پاکستان کے سب سے بڑے علاقے پر اُن کی مرہون منت بنی حکومتیں ہیں، صرف پنجاب ، خیبر پختونخوا ہی نہیں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی ئی کی حکومتیں کار فرما ہیں ،عمران خان قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں کوئی ہے اُن کو ہرانے والا !
یہ ہے وہ بیانیہ جو پاکستان تحریک انصاف کی میڈیائی ٹیم نے کچھ اس انداز میں پھیلایا کہ جس نے عمران خان کو پاکستانی سیاست کا دیوتا بنا دیا وہ ایک ناقبل شکست کردار بن کر سیاست کے اُفق پر چھائے اور اُن سے محبت کرنے والوں کو یقین کامل ہوگیا کہ اُن کے اس دیوتا کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی وہ اپنے دیوتا کے بُت کی پوجا کرنا شروع ہوئے ہر بات کو سچ اور ہر یو ٹرن کو سیاسی فتح کے نام کرتے رہے انہوں نے دن کہا تو سب نے دن کہا اور رات کہی تو رات اُن کے اشارے ابرو سے فقیر بادشاہ بننے لگے اور بادشاہوں کو فقیر کے روپ میں پینٹ کردیا جاتا ایسے ادارے جن کا نام لینے سے ہی ہمیں خوف محسوس ہوتا ہو وہ بھی اس جادو کے زیر اثر کام کرنے لگے بیانئیے کے اس سفر میں عمران خان کو پسند کرنے والے ہر حد پار کر گئے اُن کی سیاست معاشرت کے ایسے ایسے افسانے گھرے جانے لگے کہ یہ کہانیاں اور افسانے شائد ہی کسی ادیب نے اس سے پہلے لکھے ہوئے ہوں کوہ قاف کے اس شہزادے کے لیے لاکھوں پریاں بدر الجمال کا روپ بھرے داسیوں کی صورت پیش ہونے کو تیار تھی انہوں نے جس کو اپنی شریک حیات بنایا وہ اُن کے فالورز کے لیے ماں کا درجہ پاگئی اور اگر چھوڑا تو اُس کے کردار کو ان فالورز نے نشانہ بنایا یوں سیاست کے میدان میں عمران خان کی صورت ایک ایسا قلعہ تعمیر کرلیا گیا اور ایک ایسا ٹائیٹینک بنا لیا گیا جسے فتح نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
یہ سب عمران خان کے کیرئیر کے سنہری دور کی یادگاریں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طاقت کا سرچشمہ آہستہ آہستہ عمران خان سے دور ہوتا جاتا ہے مقبولیت کا وہ جنوں اور عشق اب اتنا کم ہوگیا کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ بھی وہ افرادی قوت مہیا نہ کرسکا جو اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیتا ،اس لانگ مارچ کے لیے چیئرمین تحریک انصاف نے جلسوں اور میٹنگز میں ہاتھ اٹھوا کر حلف لیے کہ سب پہنچیں گے ہر ایم این اے اور ہر ایم پی اے کی ڈیوٹیاں لگائیں گئیں لیکن نتیجہ کیا نکلا لانگ مارچ کے آخری پاور شو میں لاکھوں نہیں چند ہزار افراد نے شرکت کی اور یوں عمران خان صاحب نے اپنی ہی دو اسمبلیوں پنجاب اور کے پی کو توڑنے کا اعلان کیا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔
اب آئیں بات کرلیتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں 8 میں سے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے عمران خان نے اپنی مقبولیت کے سحر کی تصدیق کرلی ہے تو یہ ایک ایسا دھوکہ ہے جو صرف اُن افراد کو دیا جاسکتا ہے جو 2010 سے آج تک اُن مافوق الفطرت افسانوں پر یقین کر کے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں ذرا سوچئیے یہ انتخابات لیول پلے فیلڈ میں منعقد نہیں ہوئے خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی جبکہ سندھ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے دو ضنی انتخابات میں سے ایک میں عمران خان اور اُن کی جماعت کو ناکامی ہوئی این اے 237 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحکیم نے دس ہزار سے زائد ووٹ سے سیاست کے دیوتا کو شکست دی اور این اے 239 کراچی میں عمران خان نے تحریک انصاف کے 2018 کے امیدوار محمد اکرم کے مقابلے میں 19 ہزار ووٹ کم لیے ان دو حلقوں سے اندازہ کیجئے کہ مقبولت کم ہوئی یا ذیادہ چلیں دیگر حلقوں کی صورتحال کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں این اے 31 پشاور کی نشست پر عمران خان نے 57824 ووٹ حاصل کیے جبکہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی نے 87975 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی این اے 24میں 2018 کے انتکابات میں تحریک انصاف کے کارکن نے فضل خان نے 83596 ووٹ حاصل کیے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 78589 ووٹ لیے چند ہزار ہی صحیع لیکن ووٹ بنک تو کم ہوا وہ بھی اسوقت جب عمران خان خود الیکشن لڑ رہے تھے اُن کے مدمقابل امیدواروں سے کوئی واقف بھی نہیں تھا ماسوائے محدودے چند کے اور ملتان میں جہاں عمران خان خود نہیں تھے ڈپٹی چیئرمین کی بیٹی امیدوار تھیں وہاں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی نے ایک لاکھ سات ہزار ووٹ حاصل کیے صرف اس ایک بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ عمران خان کے لیے بنایا گیا مقبولیت کا بیانیہ کس طرح آہستہ آہستہ زمین بوس ہو رہا ہے ۔