مانیترنگ ڈیسک: چھ اگست کو جب طالبان نے افغانستان کے صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج پر قبضہ حاصل کیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ محض اگلے نو دن میں وہ نہ صرف پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے بلکہ کابل میں بھی وہ صدارتی محل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
15 اگست کو جب طالبان کے جنگجو کابل کے داخلی راستے تک پہنچے تو انھیں ملک میں دیگر علاقوں کی طرح کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور جب افغان صدر اشرف غنی اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ ملک چھوڑ گئے تو طالبان جنگجو کابل میں داخل ہو گئے اور صدارتی محل تک رسائی حاصل کر لی۔ بالخصوص اتوار کو کابل میں طالبان کے داخل ہو جانے پر پورے دن سوشل میڈیا پر طالبان، کابل اور اس حوالے سے موضوعات زیر بحث رہے اور ٹرینڈ کرتے رہے۔ اس حوالے سے پاکستانی صحافی قطرینہ حسین نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم پہلی بار سوشل میڈیا پر کسی ملک کو گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں'۔
پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی افغانستان کی صورتحال پر اپنا ُیغام سوشل میڈیا پر شئیر کیا، جن پر پاکستانی طالبان نے اکتوبر 2012 میں قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ 'ہم سب سکتے کی حالات میں دیکھ رہے ہیں کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ میں خواتین، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے شدید پریشان ہوں۔
'لیکن اصل بات ہوگی کہ وہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، اور یہی سب سے اہم ترین معاملہ ہوگا کہ آیا خواتین کے ساتھ ملک میں برابری کا سلوک کیا جائے گا یا نہیں۔'