مانیترنگ ڈیسک: چھ اگست کو جب طالبان نے افغانستان کے صوبے نمروز کے دارالحکومت زرنج پر قبضہ حاصل کیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ محض اگلے نو دن میں وہ نہ صرف پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے بلکہ کابل میں بھی وہ صدارتی محل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
15 اگست کو جب طالبان کے جنگجو کابل کے داخلی راستے تک پہنچے تو انھیں ملک میں دیگر علاقوں کی طرح کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور جب افغان صدر اشرف غنی اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ ملک چھوڑ گئے تو طالبان جنگجو کابل میں داخل ہو گئے اور صدارتی محل تک رسائی حاصل کر لی۔ بالخصوص اتوار کو کابل میں طالبان کے داخل ہو جانے پر پورے دن سوشل میڈیا پر طالبان، کابل اور اس حوالے سے موضوعات زیر بحث رہے اور ٹرینڈ کرتے رہے۔ اس حوالے سے پاکستانی صحافی قطرینہ حسین نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم پہلی بار سوشل میڈیا پر کسی ملک کو گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں'۔ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کمرشل پروازوں کا سلسلہ معطل کیے جانے کے بعد ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے تھے جو کابل سے روانہ ہونے کے لیے بے چین نظر آ رہے تھے لیکن انھیں کوئی پرواز نہیں مل رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر شئیر کیے جانے والی ویڈیوز پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی نشریاتی ادارے کے نمائندے رچرڈ اینگل نے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'امریکہ نے ایئرپورٹ کو محفوظ بنانے کے لیے ہزاروں فوجی بلائے ہیں لیکن وہ صرف امریکی عملے کو نکالنے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک اور نشانی ہے کہ کس طرح افغانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور امریکہ کی جانب سے منصوبہ بندی کا کتنا فقدان ہے۔'
UNBELIEVABLE footage from #Kabul pic.twitter.com/N6G505gIFW
— Rising Pakistan ???????? (@Pakcoalition) August 16, 2021
پاکستان کی نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی افغانستان کی صورتحال پر اپنا ُیغام سوشل میڈیا پر شئیر کیا، جن پر پاکستانی طالبان نے اکتوبر 2012 میں قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ 'ہم سب سکتے کی حالات میں دیکھ رہے ہیں کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ میں خواتین، اقلیتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے شدید پریشان ہوں۔' طالبان کی جانب سے انتہائی تیز پیش قدمی کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے صحافی حسن زیدی نے اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں تبصرہ کیا کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان ایسا کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ وہ پس منظر میں مخالفین سے مذاکرات کر رہے تھے اور انھیں ہتھیار ڈالنے پر قائل کر رہے تھے۔ حسن زیدی کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر ایسا کرنے کی وجہ سے شاید افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہو جو کہ پاکستان کے لیے بھی خوش آئند بات ہے۔
'لیکن اصل بات ہوگی کہ وہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، اور یہی سب سے اہم ترین معاملہ ہوگا کہ آیا خواتین کے ساتھ ملک میں برابری کا سلوک کیا جائے گا یا نہیں۔'