سٹی42: پاکستان میں ہر سال سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ مرجاتے ہیں، دو ماہ قبل بھی کراچی میں زہریلی گیس کے اخراج کے بعد سانس کی بیماری سے ہلاکتیں ہوئیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے میں شکوک و شبہات کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا خوف و ہراس پھیلانے کے مترادف ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں پندرہ روز میں 300 سے زائد مریض اسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گئے، جس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے.رپورٹ میں بتایا گیا کہ مرنے والوں میں کورونا سے ملتی جلتی علامات پائی گئیں ، پراسرارطور پر مرنے والوں میں نمونیا، سانس ، پھیپھڑوں میں پانی کی علامات تھی، کئی لوگ مردہ حالت میں لائے گئے اور کئی مریض چند گھنٹے بعد انتقال کر گئے تاہم کورونا تھا یا نہیں تشخیص نہیں کی گئی۔
اس معاملے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شکوک و شبہات کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا خوف و ہراس پھیلانے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں ہر سال سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ مرجاتے ہیں، 2017 کا ڈیٹا اس بات کی تصدیق کرتا ہے، کہ لوگوں میں ایسی بیماریاں عام ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70ہزارکے قریب افراد سانس کی بیماریوں اورتقریباً60ہزار سانس کے نچلے حصے کی انفیکشن سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
2017میں ٹی بی نے بھی40ہزار سے زائد افراد کی جان لے لی۔ ایسے میں غیرملکی ادارے کے مطابق پاکستان میں آلودگی کے باعث شہریوں میں سانس اورپھپھڑوں کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں.
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے خدشات پر نظر رکھنا اچھی بات ہے لیکن اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر کے خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے۔
کراچی میں فروری کے اختتام پر ایک جہاز لنگر انداز ہونے کی وجہ سے زہریلی گیس پھیلی، جس کے بعد 14 اموات ہوئیں، تب بھی وجہ سانس کی بیماریاں ہی تھیں، جس کو زہریلی گیس نےبڑھایا اور لوگ جانبر نہ ہو سکے۔ اب بھی سانس اورپھپھڑوں کی بیماریاں ہیں اموات کی بڑی وجہ بن رہی ہیں۔