کس قانون کے تحت یوٹیوب چینلز بن رہے ہیں؟ چیف جسٹس برہم

15 Oct, 2020 | 07:59 PM

Malik Sultan Awan

(ملک اشرف) لاہورہائیکورٹ نےسوشل میڈیا پرتوہین آمیزموادنہ ہٹانے کیلئے درخواست پرکابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کاریکارڈ طلب کرلیا۔ عدالت نے یوٹیوب اورفیس بک سمیت سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی کاریکارڈ پیش کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد ہٹانے کیلئے درخواست پر سماعت کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان، ڈپ یباٹارنی جنرل، اسد علی باجوہ، ڈائریکٹر سائبر کرائم ڈی آئی جی عبدالرب سمیت دیگر افسران پیش ہوئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایف آئی اے اور وفاقی حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم بتائیں کہ توہین آمیز مواد مستقل طور پر ہٹانے کے لیے کیا کررہے ہیں ؟

چیف جسٹس قاسم خان نے ہدایت کی کہ وزیراعظم کا جواب آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں چیف جسٹس قاسم خان نے باور کرایا کہ ایسا معاملہ ہے کہ وزیر اعظم کو خود آگے آنا چاہیے. چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ یہ بھی ہدایت کی کہ سوشل میڈیا پر توہین امیز مواد کا معاملہ ائندہ کابینہ کے ایجنڈہ کا حصہ بنایا جائے اور وزیر اعظم اگر جواب کہ دینا چاہیں تو عدالت کو آگاہ کیا جائے چیف جسٹس قاسم خان نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ نہ یوٹیوب چینلز کی کوئی مانیٹرنگ ہ اور نہ فیس بک کی.

وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ مانیٹرنگ کا موثر نظام نہیں قانون سازی کررہے ہیں. چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پراسکیوشن کا یہ حال ہے کہ صرف ایک مقدمہ میں سزا ہوئی چیف جسٹس قاسم خان نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت یوٹیوب چینلز بن رہے ہیں؟ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیئے کہ اس ملک میں انارکی پھیل رہی ہے ایف آئی اے سویا ہوا ہے. لاہور ہائیکورٹ نے یوٹیوب ، فیس بک کا مکمل مانیٹرنگ نظام سے متعلق ریکارڈ طلب کرلیا۔

مزیدخبریں