(این این آئی) پاکستان نے ایک با ر پھر بھارتی دہشتگردی کے ناقابل تردید ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان، بلوچ لبریشن آرمی سمیت کالعدم تنظیموں اور الطاف حسین گروپ کو اسلحہ اور رقم فراہم کی جارہی ہے، سی پیک کے خلاف بھارت نے 700 افراد پر مشتمل ملیشیا ترتیب اورپاکستان میں اہم شخصیات کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی، ملک فریدون کے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی سے روابط تھے۔
اے پی ایس پشاور حملے کے بعد ملک فریدون جشن منانے کیلئے افغانستان میں بھارت قونصلیٹ گیا، پی سی گوادر حملے کا ماسٹرمائنڈ را افسر انوراگ سنگھ تھا، بھارت واحد ملک تھا جو پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی باقاعدہ کوشش کر رہا تھا اور لابی کر رہا تھا، بھارت کا مقصد سیاسی عدم استحکام ہے جس کے ذریعے وملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے، نومبر اور دسمبر میں کراچی، لاہور، پشاور سمیت دیگر شہروں میں بھارت کی جانب سے دہشتگرد حملوں کا خطرہ ہے، بھارت کیخلاف شواہد بین الاقوامی برادری کے سامنے ڈوزیئرکی شکل میں پیش کررہے ہیں ، مزید خاموشی پاکستان اور خطے کے مفاد میں نہیں ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل بابر افتخار اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ ورز لائن آف کنٹرول پر جو بزدلانہ کارروائی کی ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں جس میں ہمارے معصوم نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ آپ دیکھ رہے ہیں کچھ عرصے سے یہ ان کا طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ وہ مسلسل سیز فائر کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس موقع پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے جاری کیے گئے ڈوزیئر سے متعلق کچھ معلومات فراہم کیں۔ پاکستان میں حالیہ بدامنی میں اضافہ بھارت کے تمام دہشت گرد برانڈز، قوم پرست اور علیحدگی پسندوں سے براہ راست رابطوں کا نتیجہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ علیحدہ ہونے والے جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے اگست 2020 میں ساتھ آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد بھارت مسلسل بلوچستان کے کالعدم علیحدگی پسند گروہوں بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر اے کے ساتھ ٹی ٹی پی کا ایک کنسورشیم بنانے میں مصروف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بلوچ علیحدگی پسند گروہ پہلے ہی براس کے بینر تلے متحد ہیں، براس 2018 میں بنائی گئی تھی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کرنل راجیش جو افغانستان میں بھارتی سفارتخانے میں ملازم تھے جنہوں نے دری زبان میں خط میں واضح لکھا کہ ان کی ان دہشت گرد گروہوں کے کمانڈرز کے ساتھ 4 ملاقاتیں ہوئی ہیں کہ پاکستان کے میٹروپولیٹن شہروں کراچی، لاہور اور پشاور میں نومبر اور دسمبر 2020 میں دہشت گردی کی کارروائی کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیز داعش پاکستان بنا کر پاکستان کا داعش کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں، حالیہ دنوں میں 30 بھارتی داعش کے عسکریت پسندوں کو بھارت سے افغانستان اور پاکستان سرحد کے ساتھ مختلف کیمپس میں منتقل کیا گیا ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ یہ بھارت کے 2 انٹیلی جنس آپریٹو کی جانب سے کیا گیا ہے، ان عسکریت پسندوں کو داعش کمانڈر شیخ عبدالرحیم عرف عبدالرحمن مسلم دوست کے حوالے کیا گیا۔انہوں نے بھارت کی دہشتگردوں کو معاونت کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ناقابل تردید ثبوت سامنے آئے ہیں کہ پاکستانی سرحد کے ساتھ آپریٹ کرنے والے بھارتی سفارتخانے اور قونصل خانے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے دہشت گردوں کی معاونت کے گڑھ بن چکے ہیں، ہمارے پاس بھارتی دہشت گردی کی فنڈنگ کے ثبوت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکار باقاعدگی سے مختلف دہشتگرد سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ان میں سے ایک میں افغانستان کیلئے بھارتی سفیر اور جلال آباد میں بھارتی قونصلر نے تحریک طالبان پاکستان اور علیحدگی پسند بلوچ گروہوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شراکت داروں سے تفصیلی بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را تیسرے ملک میں اپنے فرنٹ مین کو مالی معاونت فراہم کرنے کر رہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے 2 ٹرانزیکشن کی ہیں، جس میں سے ایک خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کو فروغ دینے کیلئے تھی، یہ دونوں ٹرانزیکشن بھارتی بینک سے کی گئیں اور 28 ہزار ڈالر پنجاب بینک انڈیا سے منتقل کیے گئے، اس کے علاوہ 55 ہزار 851 ڈالر کی ٹرانزیکشن بھارتی شہری من میت کی جانب سے نئی دہلی میں بھارتی بیک سی کی گئی اور اس رقم کو افغانستان انٹرنیشنل بینک میں وصول کیا گیا۔وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے 'را' کے کارندوں کے نام، دستاویزات اور فون نمبرز بھی دکھائے۔