تحریر،عامر رضا خان :آپ چند دن میں امیر ہونا چاہتے ہیں یہ بڑا گھر ، لمبی کار اندرون بیرون ملک اکاونٹس میں بھاری رقم جمع کرانا چاہتے ہیں ، تو آئیں جھوٹ بولنے کی اپنی ذاتی فیکٹری لگائیں وہ بھی کچھ زیادہ نہیں، صرف چند ہزار کے ایک فون سے کام شروع کریں چند ایم بی کی کوئی ایک سوشل میڈیا ایپ کا انتخاب کریں اپنا اکاؤنٹ بنائیں اور شروع ہوجائیں، بس خیال یہ کرنا ہے کہ آپ نے جھوٹ بولتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس کے کردار " ماما عظمت " جیسا منہ بنانا ہے اور شروع ہوجانا ہے جو منہ میں آئے بک دیں، کسی کو چور ٹھہرائیں یا کسی کو قلندر و ولی اب آپ کے ہاتھ ہے ،بس آپ نے بیرون ملک سے اکاؤنٹ بنوانا ہے اور شروع ہوجانا ہے کسی کہ باپ کو بھی جرات نہیں ہوگی کہ آپ سے پوچھ سکے کہ آپ نے یہ جھوٹ کیوں بولا، پکڑے بھی جائیں تو صاف کہیں " معافی تو ہم اپنے باپ سے بھی نہیں مانگتے، ان سے کیسے مانگوں " اچھی شہرت کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے چند صحافی نما دوست میڈیا میں بیٹھ کر آپ کے بولے جھوٹ کی چڑیا کو اور اونچا اور اونچا اڑائے ،آپ کی نیک نامی کے ڈنکے بجائے اور اگر آپ نے زندگی میں کسی میڈیا ہاؤس میں بطور سٹنگر ، ٹرینی یا الیکشن سیل میں ایک ماہ کی عارضی نوکری بھی کی ہوگی تو سمجھیں آپ کو " لائسنس ٹو کل " مارنے کا اجازت نامہ مل گیا، کسی کا مذاق اڑائیں ، پھکر پن دکھائیں ، شکلیں بنائیں ،ممکری کے نام پر سیاستدانوں کا تمسخر اڑائیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگر کوئی پوچھ لے تو آزادی صحافت کا شور مچائیں، شور مچانے کی سہولت کاری کے لیے ملک میں کم و بیش دو ہزار تنظیمیں اور کلبز ہیں جو آپ کی آواز میں آواز ملائیں گے۔ آپ حق سچ کی آواز اور الفاظ کو تندہی باد مخالف کہیں اور جھوٹ کے عقاب کو اور اونچا اڑائیں ،کبھی کالے ڈالوں کی اصطلاح بنائیں تو کبھی بڑے گھر کا نام لیکر ماتمی محافل سجائیں ،آپ جتنی بلند آواز سے جتنا بڑا جھوٹ بولیں گے اتنے بڑے معتبر کہلائینگے اور جتنا معتبر ٹھرائیں جائیں گے اتنے زیادہ ڈالر کمائیں گے اور امیر سے امیر ہوتے چلے جائیں گے شرط صرف یہی ہے کہ ڈالر کو حاضر ناظر جان کر صرف اور صرف جھوٹ بولنا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں بولنا ۔
تو صاحبو اب جھوٹ کے اس کاروبار کو روکنے کے لیے حکومت پنجاب سامنے آئی ہے جس نے ایک بل کے ذریعے "غریب و نادار جھوٹوں" سے ڈالر کمانے کی یہ سہولت چھیننے کا فیصلہ کیا ہے، اس بل کے مطابق جسے یہ سب جھوٹ کے ڈریکولا ، اب کسی بھی شہری کے متعلق خبر دینے سے پہلے اس بات کی تصدیق کرنا ہوگی کہ یہ خبر صرف اور صرف سچ پر مبنی ہے ،قیافوں ، افواہوں ، قیاس آرائیوں پر مبنی خبر پر متاثرہ فریق عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے ،نئے قانون کے اندر جیل اور پولیس کاکوئی عمل دخل نہیں یہ کیس سول کیسز کی طرح ہی ٹریٹ ہوگا ،ٹربیونل کے جج صاحب متاثرہ فریق نوٹس جاری کرے گا یوٹیوب، فیس بک، وی لاگ، ایکس ، ٹک ٹاک پر یہ قانون لاگو ہوگا، نئے قانون کے مطابق جج صاحب کے بجائے متاثرہ فریق تاریخ دے گا، 21 روز میں جواب جمع کرانا ہوگا، حق دفاع کا موقع بھی دیا جائے گا کیس ثابت ہونے پر تین ملین کی ایک ڈگری جاری کی جائے گا، پرانے کیس کی صرف کریمنل سائڈ پرکوئی کیس کرنا چاہیے تو کرسکے گا، نئے قانون کے مطابق 180 روز میں کیس کا فیصلہ کرنا ہوگا، پروسیجر 138 روز کا ہے لیکن 30 روز ایکسٹرا بھی دیئے گئے ہیں۔
واہ واہ کیا زبردست قانون ہے اگر اس میں یہ شق بھی شامل کردی جاتی کہ مزاخیہ فنکار چینلز پر بیٹھ کر کسی جوکر اینکر کے سامنے سیاستدانوں کا مذاق نہیں اڑا سکیں گے تو یہ اور بھی اچھا ہوتا اگر اس ملک میں ججز اور جرنیل کی عزت ہے تو سیاستدانوں کو بھی اپنی عزت کا خیال ہونا چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک مسخرہ اٹھے مولانا فضل الرخمٰن کا بھیس بدلے اور اینکر اُس پر نام لے لے کر پھبتیاں کسے ، بطور صحافی 28 سال سے اس شعبے سے وابستہ ہوں اخبار اور نیشنل انٹر نیشنل میڈیا میں کام کرچکا ہوں، رپورٹنگ بھی کی، اینکرینگ بھی آج بھی تجزیہ کار ، بلاگر و کالم نویس کے طور پر پروگرامز میں بیٹھتا ہوں لیکن مجھے اس سارے قانون پر کوئی اعتراض نہیں الٹا میں خوش ہوں کیوں ؟ اس لیے کہ اس قانون سے جھوٹ کی دکان بند ہوگی اگر کوئی اپنے دعوے میں اتنا ہی سچا ہوگا تو سچ عدالت میں سامنے آجائے گا لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ ذرائع لکھیں اور جو منہ میں آئے بک بک کردیں ۔
اس قانون کے حوالے سے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے جو باتیں کی ہیں میں اُن سے کسی حد تک متفق ہوں، اُنہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں رواج رہاہے کہ اہم معاملے پر حکومت کو ئی قدم اٹھانے کی کوشش کرے تو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹپیکل فقرے کسے جاتے ہیں آزادی صحافت پر قدغن اور ڈراکولا قانون کہاجاتاہے، کالا قانون کہا جاتا ہے،کوشش کرتی ہوں کہ سادہ الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتی ہوں ،لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا، سستی شہرت اور ڈالر کمانے کےلیے جو مرضی کا ہتک عزت کا قانون کسی کو کوئی ریلیف نہیں دے سکا ہتک عزت کا پرانا قانون نوٹسز سے آگے نہیں جاسکا،ایک جھوٹے شخص نے شہباز شریف پر الزام لگایا جس پر دعویٰ کیاگیا لیکن آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوسکی ٹائم فریم کے ساتھ اس ایکٹ پر عمل درآمد ہونا ہے ،آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی ہے نا ہی کوئی پابندی لگانے کا ارادہ ہے، سوشل میڈیا سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں سُنی سنائی باتوں پر 123 روز تک ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانا کیا درست اقدامات ہیں کبھی 35پنکچرز،کبھی ہیلی کاپٹر، کبھی گاڑی کے ٹایر کی من گھڑت خبر دے دی جاتی ہے۔
اب قارئین ہی فیصلہ کریں کہ کیا جھوٹ کی خبر کو صرف اس لیے سپورٹ کیا جائے کہ یہ ہمارے کسی بھائی بند نے دی ہے کیا ایسی خبروں کو معاشرے میں ایک گند کی طرح پھیلنے دیا جائے جو سچا صحافی ہوگا؟ وہ سچی خبر دے گا تصدیق کے ساتھ لیکن جو جھوٹ کا سودا بیچیں گے پھرے جان گے ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر