سٹی42 : وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ملک میں ہتک عزت کے نئے قانون کی اشد ضرورت ہے،اسمبلی میں ہتک عزت کا نیا قانون لایاجارہا ہے، کہا جارہا ہے کہ ہتک عزت قانون کالا قانون ہے ، بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک صوبے کا قانون ہے، میں چاہتی ہوں کوئی بھی وزیراعلیٰ آئے اس کی توہین جھوٹی خبر بناکرنہیں ہونی چاہیے، انہوں نے جوتی پر قیدی نمبر 804بھی لکھ کر دیکھ لیا، آج کل’ گٹے گوڈے‘ پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کسی طرح این آر او مل جائے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو 5سے7لوگ نظر آئیں گے جو اس ایجنڈے پر کام کرتے ہیں، لوگ صحافی نہیں اپنے لئے یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، کچھ لوگ ایک ایجنڈے کے تحت صبح اٹھتے ہیں،اب ایسا نہیں ہوگا، میری بہن کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا،عزت اس وقت ہی ہوگی جب کرائیں گے ،ون سائیڈ عزت نہیں ہوگی۔ یہ اچھا ہوا کہ پہلا کیس میں خود لے کر جاؤں گی۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس قانون میں جو سب سے اچھی بات ہے وہ یہ ہے کہ کہ جو بھی جج صاحب ہوں گے جس کے اوپر بھی الزام لگے گا اس کو کہیں کہ آپ کے پاس 21 دن کی مہلت ہے، 21 دن میں اپنی مرضی کی 3 تاریخیں لے لیں، اس میں جج تاریخ نہیں دیں گے، اگر وہ شخص تاریخ نہیں بتاتا تو پھر جج خود تاریخ دیں گے کہ اب اس تک آپ کو جواب جمع کروانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 180 دن میں ہتک عزت کے کیس کو مکمل کرنا ہوگا، ہتک عزت کے قانون کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے، ہتک عزت کا الزام ثابت ہونے پر 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا، ملزم کی گرفتاری نہیں ہوگی لیکن اس کو ہرجانہ دینا ہوگا۔
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ اگر کسی کو لگے کہ اس کی ہتک 30 لاکھ سے زیادہ ہوئی یا اس کی ہتک کی نوعیت زیادہ تھی تو پھر اسے اپنا کیس پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا، اس پر تنقید کی جارہی ہے کہ صحافیوں کو عدالت میں زیر سماعت کیسز پر بولنے کی اجازت نہیں تو عدالتی معاملات کے حوالے سے بولنے کی اجازت پوری دنیا میں ہی نہیں ہوتی۔اس
وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ ہتک عزت قانون کی کسی شق پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو اتوار تک تحریری جواب داخل کریں، اس پر ہم گفتگو کریں گے، یہ وزیر اعلی کی ہدایت ہے، لیکن مزے کیلئے کسی کی تضحیک کرنا غلط ہے۔