حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات دوبارہ شروع کرے، چیف جسٹس
ویب ڈیسک: جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں.علی ظفر درست کہہ رہے ہیں کہ بال حکومت کے کورٹ میں ہے. حکومت مذاکرات کی دعوت دے تو علی ظفر بھی اپنی قیادت سے بات کریں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ آبزرویشن الیکشن کمشن آف پاکستان کی 14 مئی کو الیکشن کروانے کے سپریم کورٹ کے 4 اپریل کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی پیٹیشن کی سماعت کے دوران دی۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے حکم کے 4 اپریل کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمشن کے وکیل کو مخاطب کر کے ریمارکس دیئے کہ آج آپ نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیارکا پنڈورا باکس کھولا ہے، یہ آپ کے مرکزی کیس میں یہ موقف نہیں تھا، چیف جسٹس کا الیکشن کمشن کی نظر ثانی کی درخواست کی سماست کے دوران ریمارکس، چیف جسٹس نے الیکشن کمشن کے وکیل کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کی ہدایت کر دی اور صوبوں کو نوٹس جاری کرنے کاحکم دے دیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 4 اپریل کو حکم دیا تھا کی پنجاب میں ری الیکشن 14 مئی کو کروائے جائیں۔ الیکشن کمشن نے فنڈز اور سکیورٹی دستیاب نہ ہونے کے بعد الیکشن شیڈول پر عمل درآمد کرتے کرتے انتخاب کا عمل بیچ میں روک دیا تھا اور عدالت عظمی کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی تھی۔ اس دوران 14 مئی گزرگیا تاہم سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پنجاب میں عام انتخابات نہ ہوسکے۔الیکشن کمشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت آج پیر کے روز شروع ہوئی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی خصوصی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر 3 رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔
14مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست میں الیکشن کمیشن کا موقف ہےکہ انتخابات کی تاریخ دینےکا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل نہیں۔
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں، اس کیس میں صوبوں کو نوٹس جاری کریں گے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ایڈوو کیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمشن کے وکیل سے کہا کہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں، آپ دلائل میں کتنا وقت لیں گے؟
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ مجھے تیاری کے لئے دو سے 3 دن درکار ہوں گے۔دلائل دینے کے لئے کچھ گھنٹے لوں گا۔
اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آگئے، ان کا کہنا تھا کہ آئین کا قتل کردیا گیا ہے، ملکی آبادی کا 10 کروڑ حصہ نمائندگی سے محروم ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات کا وقت ابھی ہے، پریشان کن ہےکہ جس طرح سیاسی طاقت استعمال ہو رہی ہے، باہر دیکھیں کیا ماحول ہے، دو اہم چیزیں فنڈز اور سکیورٹی کی تھیں، آج آپ نے درخواست میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیارکا پنڈورا باکس کھولا ہے، یہ آپ کے مرکزی کیس میں موقف نہیں تھا، سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کسی اور کو بات کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ان معاملات پر عدالت آنا چاہیے تھا لیکن وہ نہیں آئے، نظرثانی کا آپشن آپ کے پاس تھا جو آپ نے استعمال کیا، ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے، وفاقی حکومت بے بس نظرآتی ہے، باہر دیکھیں انسٹالیشنز کو آگ لگائی جا رہی ہے، اللہ تعالی مشکل وقت میں صبر کی تلقین کرتا ہے، وفاقی حکومت بے بس نظرآتی ہے، چار پانچ دن سے جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں گے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات شفاف، غیرجانبدارانہ اور قانون کے مطابق کرائے جائیں، وفاقی حکومت 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپےکا فنڈ جاری کرے، الیکشن کمیشن 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں فنڈ مہیا کرنےکی رپورٹ جمع کرائے، الیکشن کمیشن فنڈ کی رپورٹ بینچ ممبران کو چیمبر میں جمع کرائے۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے سپریم کورٹ باہر احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تمام سیاسی جماعتوں کو سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کی دعوت دی ہے۔
آئین سیاسی حقوق کا ضامن ہے،ہمیں سیاسی معاملات میں نہیں جانا نہ ہی کچھ سننا چاہتے ہیں، امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور کوئی حل نکل آئے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا 2 مئی کو مذاکرات ختم کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اچانک کچھ ہوا تھا کہ جس سے مذاکرات ختم ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا انتخابات کی تاریخ پر بات نہیں بن رہی تھی۔
اٹارنی جنرل نے اس موقع پر پی ٹ یآئی کے وکیل کوٹوکا اور کہا ایسے نہ کریں علی ظفر صاحب چیف جسٹس نے آپ کو کہا ہے کہ جو پچھلے ہفتے ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔
وکیل علی ظفر نے کہا پچھلے ہفتے نام کی جمہوری حکومت نے سابق وزیراعظم کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا آپ یہ بھی دیکھیں کہ اس کے بعد کیا کیا ہوا ہے۔گرفتاری کے معاملے کو عدالت نے درست قرار دیا تھا
،چیف جسٹس نے کہا ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے۔موٹروے پر سفر کیا کچھ نظر نہیں آیا کیونکہ لوگوں کا کاروبار ختم ہوچکا ہے۔
سپریم کورٹ پاکستانی عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے موجود ہے، بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے امن ہونا ضروری ہے۔معیشت منجمند ہے۔
لوگ باہر نہیں نکل رہے چپ ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔باہر شدید پرتشدد ماحول ہے۔ اگر تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرے گا۔ میرا پیغام ہے کہ دونوں جانب سے اخلاقیات کے اعلی معیار کو قائم کیا جائے۔
آپ کوکیا لگتا ہے عدالت بھول گئی ہے کہ 90 دن کی معیاد آئین کی بنیاد ہے۔آئین میں 90 دن ہیں تو 90 ہیں، 14 مئی کا حکم تھا تو 14 مئی کو ہی پر عمل ہونا تھا
عدالت نے حکومت اور پی ٹی آئی کو الیکشن کی تاریخ طے کرنے پر مذاکرات کا 2 مئی کو ٹوٹا ہواسلسلہ بحال کرنے کا مشورہ دے کر سیاسی جماعتوں اور دیگر فریقین کو اس ری ویو پیٹیشن کی آئندہ سماعت میں پیش ہونے کے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کر کے کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔