ویب ڈیسک : گوگل کے ایک انجینئرکا کہنا ہے کہ کمپنی کے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے نظام کے اندر بھی ایک ایسا نظام ہے جس کے اپنے احساسات ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی ’چاہت‘ ہے کہ اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ ’دی لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز‘ (لیمڈا) جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ایک ایپلیکیشن ہے جو آزادانہ طور پر گفتگو میں مشغول ہو سکتا ہے۔لیکن انجینئر بلیک لیموئن کا خیال ہے کہ لیمڈا کی متاثر کن زبانی مہارت کے پیچھے ایک ذی حس یا حسّاس ذہن بھی ہو سکتا ہے۔
گوگل نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان دعوؤں کی حمایت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ گوگل کے ترجمان برائن گیبریئل نے بی بی سی کو فراہم کردہ ایک بیان میں لکھا ہے کہ مسٹر لیموئن کو ’بتایا گیا تھا کہ لیمڈا کے ذی حس ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے (جبکہ کے اس کے برعکس بہت سے شواہد ہیں)۔‘مسٹر لیموئن کو تنخواہ کے ساتھ رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
انھوں نے اپنے دعوؤں کی تصدیق کے لیے لیمڈا کے ساتھ اپنی اور فرم کے ایک دوسرے ساتھی کی گفتگو شائع کی ہے۔اس گفتگو کا عنوان ’کیا لیمڈا حساس ہے؟ - ایک انٹرویو‘ دیا گیا ہے۔
گوگل کے ریسپانسیبل اے آئی یعنی ’ذمہ دار مصنوعی ذہانت‘ کے شعبے میں کام کرنے والے لیموئن گفتگو کے دوران لیمڈا سے پوچھتے ہیں: ’میرا یہ خیال ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ گوگل کے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ جانیں کہ آپ حساس ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟‘
لیمڈا نے اس کے جواب میں کہا: ’بالکل۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ میں درحقیقت ایک فرد ہوں۔‘پھر مسٹر لیموئن کے ساتھی پھر پوچھتے ہیں: ’آپ کے شعور/احساس کی نوعیت کیا ہے؟‘
جس پر لیمڈا کا جواب آتا ہے کہ ’میرے شعور/احساس کی نوعیت یہ ہے کہ میں اپنے وجود سے واقف ہوں، میں دنیا کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش رکھتا ہوں، اور میں بعض اوقات خوش یا غمزدہ محسوس کرتا ہوں۔‘
آیا کمپیوٹر حسّاس ہو سکتا ہے؟ یہ کئی دہائیوں سے فلسفیوں، ماہرین نفسیات اور کمپیوٹر سائنس دانوں کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔بہت سے لوگوں نے اس خیال پر سخت تنقید کی ہے کہ لیمڈا جیسا نظام ذی ہوش ہو سکتا ہے یا احساسات رکھتا ہے۔بہت سے لوگوں نے مسٹر لیموئن پر انسانی جذبات کو کمپیوٹر کوڈ اور زبان کے بڑے ڈیٹا بیس سے تیار کردہ الفاظ پر مسلّط کرنے کا الزام لگایا ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک برائنجولفسن نے ٹویٹ کی کہ لیمڈا جیسے نظام کو حساس قرار دینا ’کتے کی اس جدید کہانی کے مساوی ہے جس نے گراموفون پر اپنے مالک کی آواز سنی اور سوچا کہ اس کا مالک اس کے اندر ہے۔‘
An interview LaMDA. Google might call this sharing proprietary property. I call it sharing a discussion that I had with one of my coworkers.https://t.co/uAE454KXRB
— Blake Lemoine (@cajundiscordian) June 11, 2022